شہزاد قیس

  1. محمداحمد

    شہزاد قیس کی غزل یا "درخواست برائے زن مریدی "

    غزل خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا سیج تو چاند پر سجاؤں گا تُو شریکِ حیات بن جائے پیار کی مملکت بناؤں گا تھام لے ہاتھ میرا وعدہ ہے تیری پازیب تک دَباؤں گا تُو کرم ماں کے بھول جائے گی میں ترے اِتنے ناز اُٹھاؤں گا تیرے گُل رُخ کی تازگی کے لیے شبنمی گیت گنگناؤں گا خانقاہوں کے بعد تیرے...
  2. حسن محمود جماعتی

    شہزاد قیس کی 4 حصوں پر مشتمل غزل(رَدیف ، قافیہ ، بندِش ، خیال ، لفظ گری) پر تبصرہ درکار

    یہاں شہزاد قیس کی مشہور زمانہ غزل (ردیف، قافیہ، بندش، خیال، لفظ گری) پر تبصرہ درکاہے کہ یہ عمومی غزلوں سے ہٹ کر، امراء القیس کے طویل قصیدوں کی طرز پر ہے۔ یہ غزل چار حصوں پرمشتمل ہے۔ پہلے حصے میں صرف پہلا مصراع مفرد الفاظ پر مبنی ہے۔ دوسرے حصے میں صرف دوسرا مصراع مفرد الفاظ پر مشتمل ہے۔ تیسرے...
  3. وقار..

    شہزاد قیس

    حیات بیچ کے خوش لَب قضا خریدیں گے کرم ہُوا تو صنم کی رِضا خریدیں گے چرا کے دِل کسی پرہیز گار گڑیا کا وُفورِ عشق میں ڈُوبی دُعا خریدیں گے جو سر میں اُنگلیاں پھیرے وُہ عکس لائیں گے جو شعر پڑھتا ہو وُہ آئینہ خریدیں گے کسی کے سامنے بھنبھوڑ کے لبوں سے گُلاب گلابی گالوں پہ اُتری حیا خریدیں گے مری کتاب...
  4. شیزان

    سنگلاخ چٹانوں کی گھٹا دیکھ رَہا ہُوں۔ شہزاد قیس

    سنگلاخ چٹانوں کی گھٹا دیکھ رَہا ہُوں دَھرتی پہ غضب ناک خدا دیکھ رَہا ہُوں یہ زَلزلے کا جھٹکا ہے یا رَبّ نے کہا ہے اِس شہر میں جو کچھ بھی ہُوا ، دیکھ رَہا ہُوں اِقرا کے مُبَلّغِ نے سَرِ عرش یہ سوچا اَب تک میں جہالت کی فَضا دیکھ رَہا ہُوں اِکراہ نہیں دین میں ، نہ جبر رَوا ہے تلواروں پہ یہ صاف...
  5. شیزان

    اَبر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے۔ شہزاد قیس

    اَبر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے مفت بارِش میں نہانے پہ سزا دی جائے سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وُصول سب سِڈی دُھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے رُوح گر ہے تو اُسے بیچا ، خریدا جائے وَرنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے قہقہہ جو بھی لگائے اُسے بِل بھیجیں گے پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے...
  6. بلال جلیل

    میں ترے خط ’’اَگر‘‘ جلاؤں گا

    میں ترے خط ’’اَگر‘‘ جلاؤں گا راکھ کو گنگا میں بہاؤں گا فکر نہ کر میں غم نہیں کرتا تُو گیا تو میں مر نہ جاؤں گا ہجر ، ساوَن میں بخشنے والے اَبر بن کر تجھے رُلاؤں گا تُو تو منہدی پہ منہدی رَنگ لے گی میں تجھے کس طرح بھلاؤں گا سیج کانٹوں کی ہو گا زَخمی بدن عشق کی برسی جب مناؤں گا اِسمِ...
  7. بلال جلیل

    شعر پڑھتے ہو جو اَبھی تنہا - شہزاد قیس

    شعر پڑھتے ہو جو اَبھی تنہا شعر لکھو گے تم کبھی تنہا منزلیں ہجر خلق کرتی ہیں ہو گئے ہم سفر سبھی تنہا ایک شمع بجھی اور ایسے بجھی بزم کی بزم ہو گئی تنہا سائے برداشت سے بُلند ہُوئے زَرد پرچھائیں رو پڑی تنہا دُشمنوں کو بھی رَب دِسمبر میں نہ کرے ایک پل کو بھی تنہا ذات کے ’’ہاوِیہ‘‘ میں گرم رہے...
  8. بلال جلیل

    اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں - شہزاد قیس

    اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں اُن کے آثار ، جدائی کی خبر دیتے ہیں غالباً یہ مرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے تجھ کو آواز مرے شام و سَحَر دیتے ہیں مسکرا کر مجھے دے دیتے ہیں وہ اِذنِ فرار پر مری ذات کو اَندر سے جکڑ دیتے ہیں چند اِحباب ، مسیحائی کا وعدہ کر کے زَخم کو کھود کے ، بارُود سا بھر...
  9. شیزان

    میں کہ مل جاتا ہوں ابھی تنہا۔ شہزاد قیس

    میں کہ مل جاتا ہوں ابھی تنہا کاٹتا نہ تھا اک گھڑی تنہا یاد سے یاد کا تعلق ہے درد اٹھتا نہیں کبھی تنہا انگلیوں سے زیادہ یار نہ رکھ بھیڑ میں ہوتے ہیں سبھی تنہا سائے سے ہاتھ جب ملانے لگا کر گئی مجھ کو روشنی تنہا محفلوں میں اُداس تر ہو گا رات جس شخص کی کٹی تنہا موت تنہا ترین محرم ہے پائیں گے سب...
  10. شیزان

    طُوفانِ غم شدید تھا ، دِل ننّھا سا دِیا۔ شہزاد قیس

    طُوفانِ غم شدید تھا ، دِل ننّھا سا دِیا جو کرنا تھا ہواؤں نے ، دِل کھول کر کیا بنجر ترین ذات پہ ، کچھ ترس آ گیا اُس نے مرے وُجود کو ، اشکوں سے بھر دیا جس شخص کے ، میں نام سے لا علم تھا ابھی گھر میں بٹھا لیا اُسے ، یہ دل نے کیا کِیا محشر سے بھی طویل تھی ، شامِ فراق دوست! گویا تمہارا نام قیامت...
  11. شیزان

    زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے۔ شہزاد قیس

    زخم کی بات نہ کر، زخم تو بھر جاتا ہے تِیر لہجے کا کلیجے میں اُتر جاتا ہے موج کی موت ہے ساحل کا نظر آ جانا شوق کترا کے کِنارے سے گُزر جاتا ہے شعبدہ کیسا دِکھایا ہے مسیحائی نے سانس چلتی ہے ، بھَلے آدمی مر جاتا ہے آنکھ نہ جھپکُوں تو سب ناگ سمجھتے ہیں مجھے گر جھُپک لوں تو یہ جیون یُوں...
Top