جن کا جھولا فرشتے جھلاتے رہے
لوریاں دے کے نوری سلاتے رہے
جن پہ سفّاک خنجر چلاتے رہے
جن کو کاندھوں پہ آقابٹھاتے رہے
اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام
جس کا نانا دو عالم کا مختار ہے
جو جوانانِ جنّت کے سردار ہے
جس کا سر دشت میں زیرِ تلوار ہے
جو سراپائے محبوبِ غفّار...