یارب میرے جذبات کو ایسی زباں ملے
حالِ دل وہ جان لے مگر بنا کہے
محبتوں کی چاہ ہو دِل کو دِل سے راہ ہو
دو جسم ہوں ایک جان میں نہ تُو رہے
کانٹا چُبھے مجھے اگر درد ہو اُسے
روئے اُس کا دِل وہاں آنسو مراگرے
ہو ہمارے مُلک کا ایسا نظامِ زندگی
ہر بشر آزاد ہو انصاف بھی ملے
بچوں کی...
یہی تو سوچ کر اب خوف آتا ہے مجھے اکثر
ابھی تو ٹھیک ہے لیکن تمہارے بعد کیا ہوگا
ہوائیں ہیں حوادث کی اڑا لے جائیں گی سب کچھ
اگر میں رہ گئی تنہا تو گھر آباد کیا ہوگا
نہ خوشبو ہے نہ سایا ہے نہ اُس کی کوئی آہٹ ہے
اب اس سے بڑھ کے میرا گھر بھلا برباد کیا ہوگا
جہاں اس زندگانی کا آخری اک موڑ...