غزل
شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
کفنائے باغباں مجھے پھولوں کے ہار میں
کچھ تو برا ہو دل مرا اب کی بہار میں
گندھوا کے دل کو لائے ہیں پھولوں کے ہار میں
یہ ہار ان کو نذر کریں گے بہار میں
نچلا رہا نہ سوز دروں انتظار میں
اس آگ نے سرنگ لگا دی مزار میں
خلوت...
غزل
محِفلِ عالَم میں پیدا برہَمی ہونے لگی
زندگی ، خود ہی حرِیفِ زندگی ہونے لگی
سعئیِ تجدِیدِ جنُونِ عاشقی ہونے لگی
یاد بھی ہونے لگی، فریاد بھی ہونے لگی
شرم سے آنکھیں جُھکا دِیں احتیاطِ ضبط نے !
جب ، نظر بھی ترجمانِ بیکسی ہونے لگی
دشتِ ایمن میں چراغِ طُور ٹھنڈا ہو گیا
جلوہ گاہِ دِل میں،...
غزل
پہنچے تا بہ منزل کیا، سِلسِلہ یہاں اپنا
راستے ہیں سب اُن کے اور کارواں اپنا
کیا کریں کہِیں قائم عارضی نِشاں اپنا
ہے وہی مکاں اپنا، جی لگے جہاں اپنا
بزمِ حُسن میں ہُو گا کون ترجُماں اپنا
دِل پہ کُچھ بھروسا تھا، دِل مگر کہاں اپنا
وقت راہِ منزِل میں ہو نہ رائیگاں اپنا
روز رُخ بدلتا ہے...
غزلِ
سیمؔاب اکبر آبادی
افسانے اُن کے محفلِ اِمکاں میں رہ گئے
کچھ روز، وہ بھی پردۂ اِنساں میں رہ گئے
سو بار ہاتھ اُلجھ کے گریباں میں رہ گئے
اب کتنے دِن قدومِ بہاراں میں رہ گئے ؟
کافُور سے بھی عِشق کی ٹھنڈی ہُوئی نہ آگ
پھائے لگے ہُوئے دلِ سوزاں میں رہ گئے
جتنے نِشاں جُنوں کے تھے لوٹ آئے...
جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے
میں دنیا سے انوکھا تھا کہ وہ کرتا وفا مجھ سے؟
ہوئی ہے آئینہ خانے میں کیا ایسی خطا مجھ سے
کہ تیرا عکس بھی ہے آج شرمایا ہوا مجھ سے
تپِ فرقت کا شاید کچھ مداوا ہونے والا ہے
کہ اب خود پوچھتے ہیں چارہ گر میری دوا مجھ سے
مرے پہلو میں دل رکھ کر مجھے قسمت نے...
غزلِ
سیماب اکبرآبادی
کیا جانے میں جانا ہے ، کہ جاتے ہو خفا ہو کر !
میں جب جانُوں مِرے دل سے چلے جاؤ جُدا ہو کر
تصور آپ کا، کیا کیا فریبِ جلوہ دیتا ہے
کہ رہ جاتا ہُوں میں اکثر، ہم آغوشِ ہوا ہو کر
وہ پروانہ ہُوں، میری خاک سے بنتے ہیں پروانے
وہ دیپک ہُوں، کہ انگارے اُڑاتا ہُوں فنا...
سیماب اکبرآبادی
مجھے فکر و سرِ وفا ہے ہنوز
بادۂ عِشق نارسا ہے ہنوز
بندگی نے ہزار رُخ بدلے
جو خُدا تھا، وہی خُدا ہے ہنوز
او نظر دل سے پھیرنے والے
دل تُجھی پر مِٹا ہُوا ہے ہنوز
ساری دُنیا ہو، نا اُمید تو کیا
مجھے تیرا ہی آسرا ہے ہنوز
نہ وہ سرمستِیاں نہ فصلِ شباب
عاشقی صبر آزما ہے ہنوز
دل...
غزل
سیماب اکبرآبادی
اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی
نوحہ ہے زندگی کا کہانی شباب کی
تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی
تھی الوداعِ ہوشِ تجلّئِ مختصر
میرا تو کام کرگئی جنْبش نقاب کی
وہ میرے ساتھ ساتھ مُجسّم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی...