ایک دھاگے میں پھول پتھر پر ایک مصرع دیکھ کر یہ غزل یاد آئی۔
غزل
ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے
ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے
اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے
کچھ ستارے...
یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے
زنجیر کی صدا تھی نہ مَوجِ شمیمِ زلف
یہ کیا طِلسم ’ اُن کے مِرے ‘ فاصلے میں تھا
خِضر مشہور ہو اِلیاس بنے پھرتے ہو
کب سے ہم گُم ہیں، ہمارا تو پتہ دو ہم کو
شورشِ عشق میں ہے حُسن برابر کا شریک
سوچ کر جرمِ تمنّا کی سزا دو ہم کو...
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے
دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا
پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر
ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی...
آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں اور کوئی پیرا گراف دل کو چھو جائے تو شیئر کرنا مت بھولیئے
سمندر سب کے لیے ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اس میں سے موتی تلاش کر لیتے ہیں ، کچھ مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں اور کچھ کو سمندر سے کھارے پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا ۔
بادل سے برسنے والا پانی ایک جیسا ہی ہوتا...