غزل
نبضِ ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشہء ساعت سے نکلنا چاہے
دستکیں دیتا ہے پیہم مری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتھر سے ابلنا چاہے
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلہء سنگِ گراں
کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے
تھم گیا آ کے دمِ بازپسیں، لب پہ وہ نام
دل یہ موتی نہ اگلنا نہ نگلنا چاہے...