سرشار صدیقی

  1. طارق شاہ

    سرشار صدیقی - صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤگے لوگو

    غزلِ سرشار صدیقی صحرا ہی غنیمت ہے، جو گھر جاؤگے لوگو وہ عالمِ وحشت ہے کہ مر جاؤگے لوگو یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤگے لوگو میری ہی طرح تم بھی بِکھرجاؤگے لوگو وہ موجِ صبا بھی ہو تو ہشیار ہی رہنا سُوکھے ہُوئے پتّے ہو بِکھر جاؤگے لوگو اِس خاک پہ موسم تو گُزرتے ہی رہے ہیں موسم ہی تو ہو تم بھی...
  2. سیدہ شگفتہ

    روشنی کا نوحہ - سرشار صدیقی

    روشنی کا نوحہ سرشار صدیقی میرے گھر کے تنگ آنگن کی بوسیدہ جھولی میں جتنی دُھوپ تھی ہم سائے کی اُونچی دیواروں کے سائے اپنا مال سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑے ہیں بچی کھچی ، سہمی سمٹی تھوڑی سی دُھوپ مرے کمرے کے روشندان میں چُھپ کر سسک رہی ہے ۔
  3. N

    نجات

    نجات حسین فردا کی آرزو میں، مرا یقیں کب سے زندگی کی صلیب پر انتظار کی گرد ہو چکا ہے یہ شعلہِ اعتبار فانوسِ زیست میں، سرد ہو چکا ہے مرے خدا !!! دل کی سرزمیں پر کوئی مسیحا اتار، جو قتل گہہ جاں میں ۔ امید کا معجزہ دکھائے نہیں تو اے آسمان والے زمیں سے جسطرح تونے ساری مسرتوں،...
Top