وہ بے رخی کہ تغافل کی انتہا کہیے
بہ ایں ہمہ اُسے کس دل سے بے وفا کہیے
غمِ حیات و غمِ کائنات سے ہَٹ کر
کسی کے قامت و گیسو کا ماجرا کہیے
وہ منفعل ہو، کہ ہو مشتعل بَلا سے مگر
کبھی تو حالِ دلِ زار بَرملا کہیے
ادب کا ہے یہ تقاضا کہ اُس کی محفل میں
سکوتِ ناز کو بھی نغمہ و صدا کہیے
تضادِ رسمِ وفا...
غزلِ
نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے، جو رَواں ہے بے اِرادہ
یہی لوگ ہیں، ازل سے جو فریب دے رہے ہیں !
کبھی ڈال کر نقابیں، کبھی اَوڑھ کر لِبادہ
مِرے روز و شب یہی ہیں، کہ مجھی تک آ رہی ہیں !
تِرے حُسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ
سرِ انجُمن تغافل کا صِلہ بھی دے...
غزلِ
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رُخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خِزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
سِیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دِید کی،...
عزیزانِ محترم،
آداب و تسلیمات،
جنابِ سرور بارہ بنکوئی کا کلام آپ دوستوں
کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
امید ہے پسند فرمائینگے ۔
زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اس لئے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندہِ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سُنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت...