سودا

  1. طارق شاہ

    سودا تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں، خاک کر گئی

    مِرزا محمد رفیع سوداؔ تُو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی شبنم بھی اِس چمن سے صَبا چشمِ تر گئی دیوانہ کون گُل ہے تِرا، جس کو باغ میں زنجیر کرنے ، موجِ نسیمِ سَحر گئی کُچھ تو اثر قبُول کہ تجھ تک ہماری آہ سِینے سے ارمغاں لیے لختِ جِگر گئی نّظارہ باز بزمِ بُتاں کا ہُوں، جیسے مَیں تُو ہی...
  2. میم الف

    سودا گر تجھ میں ہے وفا تو جفا کار کون ہے • مرزا محمد رفیع سوداؔ

    گر تجھ میں ہے وفا تو جفا کار کون ہے دل دار تو ہوا تو دل آزار کون ہے نالاں ہوں مدتوں سے ترے سائے کے تلے پوچھا نہ یہ کبھو پسِ دیوار کون ہے ہر شب شراب خوار ہر اک دن سیاہ ہے آشفتہ زلف و لٹپٹی دستار کون ہے ہر آن دیکھتا ہوں میں اپنے صنم کو شیخ تیرے خدا کا طالبِ دیدار کون ہے سوداؔ کو جرمِ عشق سے...
  3. سین خے

    مُلّا اور اردو شاعری از محمد شمشیر

    مُلّا اوراردو شاعری ( تحریر : محمد شمشیر ) جب مستی و سرورکی حالت میں صوفیا کی زبان سے خلافِ شرع الفاظ نکل جاتے ہیں یا دانستہ مذہب کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا ہے ، اسے صوفیانہ اصطلاح میں ’’ شطحیات ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی طرح شاعری میں روایت ہے کہ مُلّا ، شیخ ، واعظ اور زاہد پر لعن طعن کی جاتی ہے ، اسے...
  4. فرخ منظور

    سودا اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے ۔ مرزا رفیع سودا

    غزل اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے پھر پھر گُل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے پوچھے ہے پھول و پھل کی خبر اب تُو عندلیب ٹوٹے، جھڑے، خزاں ہوئی، پھولے پھلے گئے دل خواہ کب کسی کو زمانے نے کچھ دیا جن کو دیا کچھ اس میں سے وے کچھ نہ لے گئے اے شمع، دل گداز کسی کا نہ ہو کہ شب پروانہ داغ تجھ سے ہوا، ہم...
  5. فرخ منظور

    سودا جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے ۔ مرزا رفیع سودا

    جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے تارِ نگہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی گو...
  6. فرخ منظور

    سودا بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے ۔ مرزا رفیع سودا

    بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے شراب، حلق سے ہوتی نہیں فرو تجھ بِن گلوئے خشک سے تیغ آبدار گزرے ہے گزر مِرا تِرے کوچے میں گو نہیں تو نہ ہو مِرے خیال میں تُو لاکھ بار گزرے ہے سمجھ کے قطع کر اب پیرہن مِرا خیّاط نظر سے چاک کے یاں تار تار گزرے ہے ہزار حرف شکایت کا،...
  7. کاشفی

    سودا باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟ - سودا

    غزل (مرزا محمد رفیع دہلوی سودا) باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟ دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تو، یہ بولِیاں ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دم ٹھٹھولِیاں حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو آنکھیں، جب آرسی نے، تِرے مُنہ پہ کھولِیاں کِس نے کیا...
  8. کاشفی

    سودا چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا - سوداؔ

    غزل (مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ) چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا پردے میں تھا آفتاب دیکھا کُچھ مَیں ہی نہیں ہوں، ایک عالم اُس کے لیے یاں خراب دیکھا بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق مذہب میں تِرے ثواب دیکھا جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی اُس چشم کو میں پُرآب دیکھا بھوَلا ہے وہ دِل سے لُطف اُس کے...
  9. طارق شاہ

    قائم چاندپُوری :::::: شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا :::::: Qayem Chandpuri

    غزل قائؔم چاندپُوری شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا اُس کا پِھر اِنتظار تھا، کیا تھا چشم، در پر تھی صبح تک شاید ! کُچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا مُدّتِ عُمر، جس کا نام ہے آہ ! برق تھی یا شرار تھا ،کیا تھا دیکھ کر مجھ کو، جو بزم سے تُو اُٹھا ! کُچھ تجھے مجھ سے عار تھا ، کیا تھا پِھر گئی وہ...
  10. فرخ منظور

    سودا اِس چمن کی سیر میں آ یار پِیویں مِل کے مُل ۔ مرزا رفیع سودا

    اِس چمن کی سیر میں آ یار پِیویں مِل کے مُل کیا بنائے صانعِ قدرت نے رنگیں گِل کے گُل یہ نہ ہو دریا کہ جس سے گذریے پُل باندھ کر موجِ چشمِ عاشقاں دے توڑ پَل میں پِل کے پُل قتل کا کس کے کیا ہے آج ان انکھیوں نے عزم کھینچ کر تیغے رہے ہیں ابرُو اس قاتِل کے تُل عہد میں تجھ حُسن کے جس کو ہوا ہے...
  11. فرخ منظور

    سودا مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا ۔ مرزا رفیع سودا

    مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا اس گلشنِ ہستی‌ میں عجب دید ہے، لیکن جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا دکھلائیے...
  12. فرخ منظور

    سودا جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا ۔ سودا

    جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا کیوں نہ کہتے تھے دلا شیریں لبوں کے منہ نہ لگ ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر نامہ...
  13. فرخ منظور

    چھَٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلفِ سیاہ کا ۔ سودا

    چھَٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلفِ سیاہ کا روشن بغیر شام نہ چہرہ ہو ماہ کا جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر شرمندہ پا نہیں مرا برگِ گیاہ کا تاراج چشمِ ترکِ بتاں کیوں نہ ہو یہ دل غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا اے آہِ شعلہ...
  14. فرخ منظور

    سودا ہندو ہیں بُت پرست، مسلماں خدا پرست ۔ سودا

    ہندو ہیں بُت پرست، مسلماں خدا پرست پوجوں میں اُس کسی کو جو ہو آشنا پرست اس دور میں گئی ہے مروّت کی آنکھ پھُوٹ معدوم ہے جہان سے چشمِ حیا پرست دیکھا ہے جب سے رنگِ گفک تیرے پاؤں میں آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست چاہے کہ عکسِ دوست رہے تجھ میں جلوہ گر آئینہ وار دل کو رکھ اپنے صفا پرست...
  15. محمد بلال اعظم

    میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے:

    میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے: سوداؔ: مرزا سوداؔ جو میرؔ صاحب کے ہمعصر اور مدِّ مقابل تھے، کہتے ہیں سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح ناسخ: شیخ ناسخؔ جو اپنی تنک مزاجی اور بد دماغی کے لئے مشہور ہیں، کہتے ہیں شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی...
  16. فرخ منظور

    سودا غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں؟ . سودا

    غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں؟ جلوہ گر یار مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں؟ مہر ہر ذرے میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں؟ پاسِ ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل ورنہ یاں کون سا اندازِ فغاں ہے کہ نہیں؟ دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج ان کا بھی اے...
  17. فرخ منظور

    سودا محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو ۔ سودا

    محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے...
  18. فرخ منظور

    سودا کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟ ۔ مرزا رفیع سودا

    اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔ کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟ نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟ سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟ ناصحا! اُٹھ...
  19. فرخ منظور

    سودا زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ ۔ مرزا رفیع سودا

    غزل زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ مجھے یہ فکر ہے تُو اپنی ہرزہ گوئی کا جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ خدا کے واسطے چپ رہ، اتر تُو منبر سے حدیث و آیہ کو مت پڑھ توُ بے وضو واعظ سنا کسی سے تُو نامِ بہشت، پر تجھ کو گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ...
  20. فرخ منظور

    سودا جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا ۔ مرزا رفیع سودا

    جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا ہاتھ سے دل کے ترے اب میں نکل جاؤں گا لطف اے اشک کہ جوں شمع گھُلا جاتا ہوں رحم اے آہِ شرر بار! کہ جل جاؤں گا چین دینے کا نہیں زیرِ زمیں بھی نالہ سوتوں کی نیند میں کرنے کو خلل جاؤں گا قطرہء اشک ہوں پیارے، مرے نظّارے سے کیوں خفا ہوتے ہو، پل مارتے ڈھل جاؤں...
Top