غزل
یہ مجھ سے کِس طرح کی ضد دل ِ برباد کرتا ہے
میں جِس کو بُھولنا چاہُوں ، اُسی کو یاد کرتا ہے
قفس میں جِس کے بازُو شل ہُوئے رزقِ اَسیری سے
وہی صیدِ زبُوں صیّاد کو صیّاد کرتا ہے
طریقے ظُلم کے صیّاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا ، اُسے آزاد کرتا ہے
اُفق سے دیکھ کر رعنائیاں ہم خاک...
غزل
بیقراری سی بیقراری ہے
دِن بھی بھاری ہے، رات بھاری ہے
زندگی کی بِساط پر اکثر
جیتی بازی بھی ہم نے ہاری ہے
توڑو دِل میرا ، شوق سے توڑو !
چیز میری نہیں تمھاری ہے
بارِ ہستی اُٹھا سکا نہ کوئی
یہ غمِ دِل! جہاں سے بھاری ہے
آنکھ سے چھُپ کے دِل میں بیٹھے ہو
ہائے! کیسی یہ پردہ داری ہے...