غزل
(طاہر فراز)
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نیرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے اُلجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پہ کتنا جالا ہے
غزل
(طاہر فراز - رام پور، ہندوستان)
اتنا بھی کرم اُن کا کوئی کم تو نہیں ہے
غم دے کہ وہ پوچھے ہیں کوئی غم تو نہیں ہے
جنت کا جو نقشہ مجھے دکھلایا گیا تھا
ایسا ہی بےعالم یہ وہ عالم تو نہیں ہے
حالات میرے اِن دِنوں پیچیدہ بہت ہیں
زلفوں میں کہیں تیری کوئی خم تو نہیں ہے
سینے سے ہٹاتا ہی نہیں ہاتھ وہ...
غزل
(طاہر فراز)
آپ ہم سے اگر نہ بولیں گے
اپنی پلکوں کو ہم بھگولیں گے
پہلے اک اک لفظ تولیں گے
پھر کہیں ہم زبان کھولیں گے
جب وہ احساس مسکرائے گا
آئینے سے لپٹ کے رو لیں گے
جب وہ لفظوں کا جال پھینکے گا
لوگ میرے خلاف بولیں گے
دل کے زخموں کی ہم کو فکر نہیں
ہم انہیں آنسوؤں سے دھولیں گے
بات جنت کی...
بہت خوبصورت ہو تم
(طاہر فراز)
بہت خوبصورت ہو تم
کبھی میں جو کہہ دوں محبت ہے تم سے
تو مجھ کو خُدارا غلط مت سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
ہے پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہیں خاموش جادو نگاہیں تمہاری
جو کانٹیں ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاؤں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانے کی خود کو بچانا...
غزل
(طاہر فراز)
خود کو پڑھتا ہوں، چھوڑ دیتا ہوں
اک ورق روز موڑ دیتا ہوں
اس قدر زخم ہیں نگاہوں میں
روز اک آئینہ توڑ دیتا ہوں
میں پجاری برستے پھولوں کا
چھو کے شاخوں کو چھوڑ دیتا ہوں
کاسائے شب میں خون سورج کا
قطرہ قطرہ نچوڑ دیتا ہوں
کانپتے ہونٹ بھیگتی پلکیں
بات ادھوری ہی چھوڑ دیتا ہوں
ریت کے...
بہت خوبصورت ہو تم
(طاہر فراز)
بہت خوبصورت ہو تم
کبھی میں جو کہہ دوں محبت ہے تم سے
تو مجھ کو خُدارا غلط مت سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
ہے پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہیں خاموش جادو نگاہیں تمہاری
جو کانٹیں ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاؤں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانے کی خود کو بچانا...
غزل
(طاہر فراز)
ہاتھوں میں کشکول، زباں پر تالا ہے
اپنے جینے کا انداز نرالا ہے
آہٹ سی محسوس ہوئی ہے آنکھوں کو
شاید کوئی آنسو آنے والا ہے
چاند کو جب سے الجھایا ہے شاخوں نے
پیڑ کے نیچے بےترتیب اُجالا ہے
خوشبو نے دستک دی تو احساس ہوا
گھر کے در و دیوار پر کتنا جالا ہے
غزل
(طاہر فراز)
گوشے بدل بدل کے ہر ایک رات کاٹ دی
کچے مکاں میں اب کے بھی برسات کاٹ دی
وہ سر بھی کاٹ دیتا تو ہوتا نہ کچھ ملال
افسوس یہ ہے اُس نے میری بات کاٹ دی
حالانکہ ہم ملے تھے بڑی مدّتوں کے بعد
اوقات کی کمی نے ملاقات کاٹ دی
جب بھی ہمیں چراغ میسّر نہ آسکا
سورج کے ذکر سے شبِ ظلمات کاٹ دی
دل...
غزل
(طاہر فراز)
جب کبھی بولنا، وقت پر بولنا
مدّتوں سوچنا، مختصر بولنا
ڈال دے گا ہلاکت میں اک دن تجھے
اے پرندے تیرا شاخ پر بولنا
پہلے کچھ دور تک ساتھ چل کے پرکھ
پھر مجھے ہم سفر، ہمسفر بولنا
عمر بھر کو مجھے بے صدا کر گیا
تیرا اک بار منہ پھیر کر بولنا
میری خانہ بدوشی سے پوچھے کوئی
کتنا مشکل ہے...
غزل
(طاہر فراز - رامپوری)
غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آگیا
غم یہ ہے قاتلوں میں تیرا نام آگیا
جگنو جلے بجھے میری پلکوں پہ صبح تک
جب بھی تیرا خیال سرِ شام آگیا
محسوس کر رہا ہوں میں خوشبو کی بازگشت
شاید تیرے لبوں پہ میرا نام آگیا
کچھ دوستوں نے پوچھا بتاؤ غزل ہے کیا
بےساختہ لبوں پہ تیرا نام...
غزل
(طاہر فراز)
میرے احساس کو شدّت نہ ملے
یا مجھے حکمِ قناعت نہ ملے
جس کے ملنے سے خُدا بن جاؤں
اے خُدا مجھ کو وہ دولت نہ ملے
میں تیرا شُکر ادا کرتا رہوں
اور مجھے حسبِ ضرورت نہ ملے
اتنا مصروف نہ کر تو کہ مجھے
تجھ سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملے
اُن ہی شاخوں پہ اُگاتا ہے مجھے
میری جن شاخوں سے فطرت...
امیری کا نشہ
ہمیں ہے یاد اب تک وہ لڑکپن کا زمانہ تھا
ہمارے بھائی بہنوں کے بچپن کا زمانہ تھا
بہت چھوٹا سا اک کمرہ تھا جس کی چھت ٹپکتی تھی
بڑی مشکل سے برساتوں کی ہر اک رات کٹتی تھی
سلاتی تھی کبھی بہنوں کو ماں آنچل کے چلمن میں
کبھی ابّو چُھپاتے لیتے تھے ہم کو اپنے دامن میں
کبھی یوں بھی ہُوا باندھے...
کاش ایسا کوئی منظر ہوتا
مرے کاندھے پر ترا سر ہوتا
جمع کرتا جو میں آئے ہوئے سنگ
سر چھپانے کے لیئے گھر ہوتا
اس بلندی پہ بہت تنہا ہوں
کاش میں سب کے برابر ہوتا
اس نے الجھا دیا دنیا میں مجھے
ورنہ ایک اور قلندر ہوتا
شاعر : نامعلوم