غزل
(طارق سبزواری)
مجھ سے ممکن نہیں ایسی کوئی تحریر لکھوں
آنکھ کو قید لکھوں، پاؤں کو زنجیر لکھوں
ہاں یہ تپتا ہوا سورج، یہ پگھلتے ہوئے لوگ
مجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھوپ کی تاثیر لکھوں
میں نے کل خواب میں اک پھول کے لب چومیں ہیں
ہو اجازت تو میں اس خواب کی تعبیر لکھوں
غزل
(طارق سبزواری)
ہجر کی آگ میں اک دن، دل یہ کاغذ کا جل جائے گا
اتنی شدّت سے مت یاد آ، ورنہ دم ہی نکل جائے گا
دھوپ کی شدّتوں کا سما، کیا ہمیشہ رہے گا یہاں
کوئی بادل اِدھر آئے گا اور موسم بدل جائے گا
عہدِ نو کی یہ بےچہرگی ختم ہوگی نہ طارق کبھی
اک تیرے بدل جانے سے کیا زمانہ بدل جائے گا