غزلِ
ثاقب لکھنوی
بَلا ہے عِشق، لیکن ہر بَشر قابل نہیں ہوتا
بہت پہلوُ ہیں ایسے بھی کہ جن میں دِل نہیں ہوتا
نشانِ بے نشانی مِٹ نہیں سکتا قیامت تک
یہ نقشِ حق جَفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا
جہاں میں نااُمیدی کے سِوا اُمّید کیا معنی
سبھی کہتے ہیں، لیکن دِل مِرا قائل نہیں ہوتا
تڑپنا کِس کا...
غزلِ
ثاقب لکھنوی
ایک ایک گھڑی اُس کی قیامت کی گھڑی ہے
جو ہجر میں تڑپائے، وہی رات بڑی ہے
یہ ضُعف کا عالم ہے کہ ، تقدیر کا لِکھّا
بستر پہ ہُوں میں یا ، کوئی تصویر پڑی ہے
بیتابئ دل کا ، ہے وہ دِلچسپ تماشہ !
جب دیکھو شبِ ہجر مِرے در پہ کھڑی ہے
اب تک مجھے کُچھ اور دِکھائی نہیں دیتا
کیا...