ثمینہ راجہ کی ایک غزل:
شاید کہ موجِ عشق، جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی
اک نونہالِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
اِس غم کی خیر ہو کہ یہ...