کہتی ہے نگاہِ آفریں کچھ
پھول اتنے کہ سوجھتا نہیں کچھ
بادل جھک آئے آئینے پر
بدلی بدلی سی ہے زمیں کچھ
اس کی ہی قبا سے ملتی جلتی
دیوارِ گلاب و یاسمیں کچھ
دیتا ہے سراغ فصلِ گُل کا
فوارۂ سحرِ نیلمیں کچھ
کھلتا نہیں بھید روشنی کا
جلتا ہے قریب ہی کہیں کچھ
نظریں تو اٹھاؤ، مجھ کو دیکھو
تم بھی تو کہو...
آدمی کی محنتوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
زندگی کو صرف تمثالِ خزاں سمجھا تھا میں
ارضِ اسفل کی بہاریں اور انسانوں کے گھر
یہ کرہ من جملۂ سیّارگاں سمجھا تھا میں
ایک ہے سب کی مسافت، ایک ہے سب کا سفر
منتشر لوگوں کو کیوں بے کارواں سمجھا تھا میں
کچھ تو موسم کا فسوں تھا اور کچھ وہ راستا
ہر شجر کو ہم...
آنکھ تاریک مری ، جسم ہے روشن میرا
در و دیوار سے ٹکراتا ہے آہن میرا
اور اب ہاتھ مرا قبضہِ شمشیر پہ ہے
یہی جوہر ہے مرا اور یہی فن میرا
آج میں تم کو جلانے کے لیے آیا ہوں
تم نے اک روز اُجاڑا تھا نشیمن میرا
صورتِ ابر برستے رہیں بازو تیرے
آگ کی طرح دہکتا رہے گلشن میرا
تم جہاں جرمِ ضعیفی کی...
یہ سب سنان و سپر تیرے نام کرتا ہوں
میں آج تجھ پہ محبت تمام کرتا ہوں
یہ فرشِ دل ترے شایان تو نہیں لیکن
ذرا ٹھہر کہ کوئی انتظام کرتا ہوں
میں انتظار بہت دیر کر نہیں سکتا
غروب مہر سے پہلے ہی شام کرتا ہوں
کوئی پیالہ نہیں اور شام آ پہنچی
سو تیغِ تیز تجھے بے نیام کرتا ہوں
یہ بات اس کو بہت...
ہے وقتِ امتحان، بهلے دن بهی آئيں گے
مہکے گا گلستان، بهلے دن بهی آئيں گے
سوئيں گے دل گرفتہ و دل ريش سکھ کی نيند
بدلے گا يہ جہان ، بهلے دن بهی آئيں گے
رنجيده کيوں ہے کوئی ستاره اگر نہيں
دل کو چراغ جان ، بهلے دن بهی آئيں گے
پهر جمع ہوں گے آگ کے چو گرد قصہ گو
چهيڑيں گے...
قنديلِ مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا
کچھ اس سے زياده ہے مرا خاک پہ ہونا
ہر صبح نکلنا کسی ديوارِ طرب سے
ہر شام کسی منزلِ غمناک پہ ہونا
يا ايک ستارے کا گزرنا کسی در سے
يا ايک پيالے کا کسی چاک پہ ہونا
لَو ديتی ہے تصوير نہاں خانۂ دل ميں
لازم نہيں اِس پهول کا پوشاک پہ ہونا
لے آئے گا اِک روز گل و...
ثروؔت حُسین
غزل
بھر جائیں گے جب زخم، تو آؤں گا دوبارا
میں ہار گیا جنگ، مگر دِل نہیں ہارا
روشن ہے مِری عُمر کے تارِیک چَمن میں !
اُس کُنجِ مُلاقات میں جو وقت گُزارا
اپنے لیے تجوِیز کی شمشِیر بَرَہنہ !
اور اُس کے لیے شاخ سے اِک پُھول اُتارا
کُچھ سِیکھ لو لفظوں کے بَرتنے کا قرِینہ
اِس شُغل...
قندیلِ مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا
کچھ اس سے زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا
ہر صبح نکلنا کسی دیوارِ طرب سے
ہر شام کسی منزلِ غم ناک پہ ہونا
یا ایک ستارے کا گزرنا کسی در سے
یا ایک پیالے کا کسی چاک پہ ہونا
لَو دیتی ہے تصویر نہاں خانہِ دل میں
لازم نہیں اس پھول کا پوشاک پہ ہونا
لے آئے گا اک روز گل و برگ...
نظم
مری موجودگی کا پھول پانی پر کِھلا ہے
سلطنت، صبحِ بہاراں کی
بہت نزدیک سے آواز دیتی ہے
سبک رفتار ۔ ۔ ۔
پیہم گھومتے پہیے ۔ ۔
گراں خوابی سے جاگے ،
آفتابی پیرہن کا گھیر دیواروں کو چھوتا
پیار کرتا۔ ۔ ۔
رقص فرماتا ۔۔۔
ارے !!!
سورج نکل آیا ۔۔۔۔
(ثروت حسین )
غزل
کتابِ سبز و درِ داستان بند کئے
وہ آنکھ سو گئی خوابوں کو ارجمند کئے
گزر گیا ہے وہ سیلابِ آتشِ امروز
بغیر خیمہ و خاشاک کو گزند کئے
بہت مصر تھے خدایانِ ثابت و سیار
سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کئے
اسی جزیرہِ جائے نماز پر ثروت
زمانہ ہو گیا دستِ دعا بلند کئے
شاعر: ثروت حسین