تمہاری منتظر یوں تو ہزاروں گھر بناتی ہوں
وہ رستہ بنتے جاتے ہیں کچھ اتنے در بناتی ہوں
جو سارا دن مرے خوابوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں
میں ان لمحوں کو سی کر رات کا بستر بناتی ہوں
ہمارے دور میں رقاصہ کے پاؤں نہیں ہوتے
ادھورے جسم لکھتی ہوں خمیدہ سر بناتی ہوں
سمندر اور ساحل پیاس کی زندہ علامت ہیں...
صداؤں کا سمندر
میرے جسم میں
ایک صداؤں کا سمندر ٹھہر گیا ہے
یہ میری آنکھ
کسی خواب کے پیہم چٹخنے کی
گونج دے رہی ہے
میں اپنی کوکھ میں سے
خاموشیوں کے ہمکنے کی
آواز سن رہی ہوں
اور پھر!
میری انگلی کی پوروں سے
میرے حرف بہے جا رہے ہیں
میرے خون کی روانیاں
جسم کی نالیوں میں سے
کسی بپھرتی ہوئی موج کی طرح...
زندگی کے ہجر میں
ہماری کلاسیکی شاعری میں جذبوں اور کیفیتوں کو بیان کرنے کی جو طاقت ہے وہ ہر زمانے اور ہر فرد کے لئے ہمیشہ تخلیقی تحریک کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے سُر۔سامونڈی میں دورسمندر پار جانے والے تاجروں کی برہن بیوی کی واردات اور کیفیت کچھ اس طرح...