غزل
تلوک چند محروم
رہی فراق میں بھی شکل رُو برُو تیری
شبہیہ کھینچی تصوّر نے ہُو بہُو تیری
معاف رکھ جو ہے گُل ہائے ترسے پیارمجھے
کہ اِن میں رنگ تِرا کُچھ ہے، کُچھ ہے بُو تیری
نسیمِ صبح کا جھونکا نفس نفس تیرا
رہے گی سوختہ جانوں کو آرزو تیری
یہ فخر کم نہیں، ہم لائقِ خِطاب تو ہیں
عزیز...
غزل
تلوک چند محرُوم
ہم دل جَلوں کو اے بُتِ نامہرباں نہ چھیڑ
بھڑکے گا اور شعلۂ سوزِ نہاں، نہ چھیڑ
صیّاد اور خِزاں کے سِتم اِس پہ کم نہیں
تو عندلیبِ زار کو، اے باغباں نہ چھیڑ
ہے، ہے ! کِسی کی بزم مجھے یاد آ گئی
واعظ خُدا کے واسطے، ذکرِ جناں نہ چھیڑ
دُنیا میں اے زیاں روشِ صلحِ کل نہ چھوڑ...