کس بستی میں آن بسا ہوں
جس کے سارے لوگ ہیں پتھر
راستے پتھر ، کوچے پتھر
در پتھر کے ، گھر پتھر کے
جو چہرہ تھا پتھر کا تھا
اُس کی باتیں پتھر کی تھیں
اُس کا لہجہ پتھر کا تھا
گیتوں کی لےِ پتھر کی تھی
اِس بستی کو چھوڑ چلا ہوں
ہر اِک نسبت توڑ چلا ہوں
لیکن واپس پھر آؤں گا
جب میں پتھر ہو جاؤں گا