تیری الفت نہیں اگر ہوگی
زندگی کسطرح بسر ہوگی
اِس توقّع پہ سانس لیتا ہوں
تیری خوشبو اِدھر اُدھر ہوگی
اپنی چوکھٹ کو چوم لینے دے
زندگی اب یہیں بسر ہوگی
ترے در سے نہ اٹھوں گا مفلس
دولتِ درد اِس قدر ہوگی
مدّتیں حبس میں گذاری ہیں
ایک دن تو شرحِ صدر ہوگی
دل کی بے نور فضاوءں میں مرے
تیرے جلوے...