نیند سے آنکھ کھلی ہے، ابھی دیکھا کیا ہے
دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
باندھ رکھّا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا دَر و دِیوار سے رِشتہ کیا ہے
ریت کی، اینٹ کی، پتھّر کی ہوں یا مٹّی کی
کِسی دِیوار کے سایے کا بھروسہ کیا ہے
اپنی دانست میں سمجھے کوئی دُنیا شاہؔد
ورنہ ہاتھوں میں...
سفر مِیں دھوپ تو ہوگی، جو چَل سکو تو چَلو
سبھی ہی بھیڑ مِیں تُم بھی نِکل سکو تو چَلو
کِسی کے واسطے رَاہیں کہاں بَدلتی ہیں
تُم اَپنے آپ کو خُود ہی بَدل سکو تو چَلو
یہاں کِسی کو کو ِئی رَاستہ نہیں دِیتا
مُجھے گِرا کے اگر تُم سَنبھل سکو تو چَلو
یہی ہے زِندگی، کُچھ خواب، چَند اُمّیدیں
اِنھی...
ایسا لگتا ہے، زندگی تُم ہو
اجنبی! کیسے اجنبی تُم ہو
اَب کوئی آرزُو نہیں باقی
جُستجُو مِیری آخری تُم ہو
مَیں زَمیں پر گھنا اندھیرا ہوں
آسمانوں کی چاندنی تُم ہو
دوستوں سے وَفا کی اُمّیدیں؟
کِس زَمانے کے آدمی تُم ہو؟
--------------
شاعر: بَشیر بَدر
غزل گو: چِترا سِنگھ