غزلِ
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے...
غزلِ
شفیق خلِش
جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا
کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا
دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں
کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا
کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !
دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا
ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے
کُچھ عجب...