وہ کُچھ گہری سوچ مِیں اِیسے ڈُوب گیا ہے
بیٹھے بیٹھے ندی کِنارے ڈُوب گیا ہے
آج کی رَات نہ جانے کِتنی لَمبی ہو گی
آج کا سُورَج شام سے پہلے ڈُوب گیا ہے
وہ جو پیاسا لگتا تھا، سیلاب زَدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈُوب گیا ہے
مِیرے اَپنے اَندر اِیک بھنور تھا جِس مِیں
مِیرا سب کُچھ ساتھ ہی میرے...