یہ غزل کل کے حلقۂ اربابِ ذوق، لاہور کے اجلاس میں تنقید کے لئے پیش کی گئی۔
غزل
ایک بھی چھینٹ نہ اُڑنے دی کہیں پانی کی
ریت نے آپ سمندر کی نگہبانی کی
کانچ کے جسم پہ پہنی ہے قبا پانی کی
پھر بھی تہمت نہ لگے حسن پہ عریانی کی
زندگی کاہشِ بے سود کا خمیازہ ہے
عمر بھر ہم نے پس انداز پشیمانی کی
اتنے...
غزل
(واجد امیر)
یوں نہ گلیوں میں پھرو کانچ کے پیکر لے کر
لوگ حاسد ہیں نکل آئیں گے پتھر لے کر
جبکہ ہم چھو نہ سکیں دل سے لگا بھی نہ سکیں
کیا کریں گے تجھے اے مہر منور لے کر
تم ذرا چپکے سے سورج کو خبر کر دینا
رات آجائے یہاں جب مہ و اختر لے کر
کون سے کوچے میں آخر تجھے چین آئے گا...