غزل
(گوپال متل)
زبان رقص میں ہے اور جھومتا ہوں میں
کہ داستانِ محبت سنا رہا ہوں میں
نہ پوچھ مجھ سے مری بے خودی کا افسانہ
کسی کی مست نگاہی کا ماجرا ہوں میں
کہاں کا ضبطِ محبت، کہاں کی تاثیریں
تسلیاں دلِ مضطر کو دے رہا ہوں میں
پھر ایک شعلہء پر پیچ و تاب بھڑکے گا
کہ چند تنکوں کو ترتیب دے رہا ہوں...
غزل
ابھی تک ہے دھبّہ جبینِ خودی پر
پشیماں ہوں میں سجدہء بندگی پر
تجھی نے تو برباد مجھ کو کیا ہے
ارے رونے والے مری بےکسی پر
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آرہی ہے تری سادگی پر
نمی اس میں اشکوں کی شامل ہے زاہد!
مجھے ناز ہے اپنی تردامنی پر
ابھی مجھ کو پینے کا ہے ہوش ساقی!
یہ اک داغ ہے...