غزل
(والی آسی - لکھنؤ)
جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح
وہ ہمیں بھول گئے ایک کہانی کی طرح
دوستو ڈھونڈ کے ہم سا کوئی پیاسا لاؤ
ہم تو آنسو بھی جو پیتے ہیں تو پانی کی طرح
غم کو سینے میں چھپائے ہوئے رکھنا یارو
غم مہکتے ہیں بہت رات کی رانی کی طرح
تم ہمارے تھے تمہیں یاد نہیں ہے شاید...
چھتری لگا کے گھر سے نکلنے لگے ہیں ہم
اب کتنی احتیاط سے چلنے لگے ہیں ہم
اس درجہ ہوشیار تو پہلے کبھی نہ تھے
اب کیوں قدم قدم پہ سنبھلنے لگے ہیں ہم
ہو جاتے ہیں اداس کہ جب دوپہر کے بعد
سورج پکارتا ہے کہ ڈھلنے لگے ہیں ہم
ایسا نہیں کہ برف کی مانند ہوں مگر
لگتا ہے یوں کہ جیسے پگھلنے لگے ہیں ہم
آئینہ...
ہم اپنے آپ پہ بھی ظاہر کبھی دل کا حال نہیں کرتے
چپ رہتے ہیں دکھ سہتے ہیں کوئی رنج و ملال نہیں کرتے
ہم جو کچھ ہیں ہم جیسے ہیں ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں
چہرے پہ بھبھوت نہیں ملتے کبھی کالے بال نہیں کرتے
ہم ہار گئے تم جیت گئے ہم نے کھویا تم نے پایا
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا ہم کوئی خیال نہیں کرتے...