زندگی سنگِ درِ یار سے آگے نہ بڑھی
عاشقی مطلعِ دیدار سے آگے نہ بڑھی
تیرگی کیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی
روشنی تابشِ رُخسار سے آگے نہ بڑھی
دلبری رونقِ بازار سے آگے نہ بڑھی
سادگی حسرتِ اظہار سے آگے نہ بڑھی
خود فراموش ترے عرش کو چُھو کر آئے
خواجگی جُبّہ و دستار سے آگے نہ بڑھی
بس میں ہوتا...
کبھی بُلا کے کبھی پاس جا کے دیکھ لیا
فسونِ سوزِ دروں آزما کے دیکھ لیا
بٹھا کے دل میں تمہیں بارہا نماز پڑھی
تمہارے گھر ہی کو کعبہ بنا کے دیکھ لیا
متاعِ زیست بنے تیرے نقشِ پا کی قسم
وہ اشک تو نے جنہیں مسکرا کے دیکھ لیا
ترے سوا تری اس کائنات میں کیا ہے
جلا کے دیکھ لیا دل بجھا کے دیکھ لیا...
ہولے ہولے بدل گئی اے اپنی ہی تصویر
اندرو اندر کم کر جاندی بندے دی تقدیر
اُنج تے بڑے کرم ہوئے نیں، بڑیاں رحمتاں ہوئیاں
میری اک دُعا پرانی ، لبھدی پھرے تاثیر
حسن اساڈی منزل ہوئی، درد اَساڈی راہ
ہاواں ہنجو سنگت ساڈی ، عشق اساڈا پیر
جِتّھے تخت خزانے ہوون اوتھے اساں نہ جانا
جِتّھے عشق دے تنبو...
چھوڑ کر جا نہ مجھے رنگِ مدارات سمجھ
میرے سائے کو مری طرح مری ذات سمجھ
میرے الفاظ کی ترتیب پہ برہم کیوں ہے
میرے الفاظ میں پوشیدہ ہے جو بات سمجھ
محتسب جھوٹے گواہوں کی گواہی پہ نہ جا
غور سے دیکھ مجھے صورتِ حالات سمجھ
اپنے شاداب حسیں چہرے پہ مغرور نہ ہو
زرد چہروں پہ جو لکھے ہیں سوالات سمجھ
شاخ...
اساں بسم اللہ نوں پڑھ کے اج کیتی شروع کتاب
وچ موراں دے پر رکھے اساں لائے عطر گلاب
وچ اکھاں غوطہ ماریا تے پکڑی زُلف دی لج
اساں موتی کڈھیا میم دا ، اساں کیتا کم شتاب
اساں ورقے تُھلے خیال دے تے کاف اچ ویکھیا نُون
اساں مستی لئی الست دی اساں پیتی رَج شراب
اساں نیتاں بنیاں پکیاں ، اساں یاریاں...
ہر ذرّہ ہے اِک وُسعتِ صحرا مِرے آگے
ہر قطرہ ہے اِک موجہِ دریا مِرے آگے
اِک نعرہ لگا دُوں کبھی مستی میں سرِ دار
کعبہ نہ بنے کیسے کلیسا مِرے آگے
وہ خاک نشیں ہُوں کہ مری زد میں جہاں ہے
بل کھاتی ہے کیا موجِ ثُریّا مِرے آگے
مَیں ہست میں ہُوں نیست کا پیغامِ مُجسّم
انگُشت بدنداں ہے مسیحا مِرے آگے...
تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
جو...
ایہہ بن سَن موتی انمول
ہنجو سانبھ کے رکھنا کول
شہر دے بُوے کُھل جاون گے
پہلے دِل دا بُوا کھول
جس دے ناں دی ڈھولک وجدی
اوسے یار نوں کہندے ڈھول
جو کِیتا تُوں چنگا کِیتا
دَبّی رہن دے، اَگ نہ پھول
میرے ورگا مل جاوے گا
پہلے اپنے ورگا ٹول
سونے ورگی اے جوانی
اینویں نہ مٹی وِچ رول
اج تے...
بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازہء ملت ہوں، بکھر جاتا ہوں اکثر
میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اتر جاتا ہوں اکثر
میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا
ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر
مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب
جینے کا تقاضا ہو تو مر...