غزل
بجا کہتے ہو تم، اچھا نہیں ہوں
میں جو کچھ ہوں مگر دھوکا نہیں ہوں
نسیمِ نرم بھی سایہ صفت بھی
فقط جلتا ہوا صحرا نہیں ہوں
ترا غم ہوں مثالِ اشکِ لرزاں
مگر میں آنکھ سے چھلکا نہیں ہوں
بدن میں پڑتی جاتی ہیں دراڑیں
ابھی تک ٹوٹ کہ بکھرا نہیں ہوں
بُھلا دوں اُن کو یہ کیسے ہے ممکن...