غزل
دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا
عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا
کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا
یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا
جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا
جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا
جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی
تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو...
غزلِ
خبر مِلی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مُجھے
کہ دیکھتا ہے کوئی چشمِ مہْرباں سے مُجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈُھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مُجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
بُلا رہا ہے کوئی بامِ کہکشاں سے مُجھے
شجر کہاں تھے صلیبیں گڑِی تھیں گام بہ گام
رہِ طلب...
غزلِ
اختر ہوشیارپوری
( پنڈت ہری چند اختر )
کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو
اِس رات کے سنّاٹے میں، کوئی تو صدا ہو
یُوں جسم مہکتا ہے ہَوائے گُلِ تر سے !
جیسے کوئی پہلوُ سے ابھی اُٹھ کے گیا ہو
دُنیا ہَمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو
کچھ اور قریب آؤ ، کوئی سُن نہ رہا ہو
یہ رنگ، یہ...