وحید اختر

  1. فرحان محمد خان

    غزل : اک زمانے سے نہیں فرصتِ عشقِ خوباں - وحید اختر

    غزل اک زمانے سے نہیں فرصتِ عشقِ خوباں اپنی وحشت پہ ہے اب بھولے فسانوں کا گماں فکر کی آگ میں جلنا ہے جہنم کا عذاب ہو خلا سر میں تو دنیا بھی ہے جنت کا مکاں رخصتِ غم بھی جو ملتی ہے تو اک دو دن کی کوئی بچھڑے تو اُسے ڈھونڈنے جائیں گے کہاں اپنی پرچھائیوں ، خوابوں کا تعاقب ہے جنوں اندھے بن...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : گمان و شک کے تلاطم! اُتار پار مجھے - وحید اختر

    غزل گمان و شک کے تلاطم! اُتار پار مجھے نہیں گنارا تو گرداب میں اُتار مجھے جو گل تھے زینتِ دستارِ شہسوارِ بہار ملے ہیں بن کے غبارِ پسِ بہار مجھے صلیبِ معرفتِ ذات کائنات ہے آج وہ دن گئے کہ خوش آتی تھی کوئے یار مجھے مجھے خبر ہے تری آستیں میں خنجر ہے جو وار کرنا ہے نظریں ملا کے مار مجھے...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے - وحیدؔ اختر

    غزل تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے دن میں بکھرا ہوں بہت رات سمیٹے گی مجھے تو بھی آ جا تو مری ذات مکمل ہو جائے نیند بن کر مری آنکھوں سے مرے خوں میں اتر رت جگا ختم ہو اور رات مکمل...
  4. فرحان محمد خان

    غزل : سایہ ہے جہاں پھولوں کا ، وہ در نہیں ملتے - وحید اختر

    غزل سایہ ہے جہاں پھولوں کا ، وہ در نہیں ملتے جو خلدِ دل و دیدہ ہیں وہ گھر نہیں ملتے قرآنِ صداقت کو پیمبر نہیں ملتے جبریل ہیں خاموش ، سخن ور نہیں ملتے خالی ہے مکاں دل کا کے دلبر نہیں ملتے نظروں کو جو پڑھ لیں وہ نظر ور نہیں ملتے جب گھر سے چلو راہ میں ملتے ہیں بہت لوگ وہ لوگ جو محبوب ہیں...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : جاگے ہیں بہت ، جی میں ہے کچھ دیر کو سو لیں - وحید اختر

    غزل جاگے ہیں بہت ، جی میں ہے کچھ دیر کو سو لیں یہ گردِ سفر ان کی تھکن ، نیند سے دھو لیں دے اذن خموشی تو گرہ درد کی کھو لیں دے بے ہُنری جاں کی اماں ہم کو تو بولیں آنکھوں کے بیابان میں لو چلتی ہے کب سے مل جائے جو اشکوں کا خریدار تو رولیں لگتی ہے سدا مفت سبیل اپنے سخن کی یہ دولتِ بیدار ہے...
  6. فرحان محمد خان

    غزل :غزل: صبح کو دیر بڑی ہے ، سو جاؤ - وحید اختر

    غزل صبح کو دیر بڑی ہے ، سو جاؤ رات ابھی پوری پڑی ہے ، سو جاؤ کیوں گنہگار ہوں چشم و لب و گوش نفسی نفسی کی گھڑی ہے ، سو جاؤ نیند کو سونپ دو سب زخم اپنے پھانس نس نس میں گڑی ہے ، سو جاؤ جاگتے عُمر کٹے گی کیسے نیند پلکوں پہ گھڑی ہے ، سو جاؤ رات بھاری ہے تو وحشت کیوں ہے عمرِ غم شب سے بڑی...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے - وحید اختر

    غزل دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے ہونٹ کھلتے ہیں تو اک بابِ ستم کھلتا ہے حرف انکار ہے کیوں نارِ جہنم کا حلیف صرف اقرار پہ کیوں بابِ ارم کھلتا ہے آبرو ہو نہ جو پیاری تو یہ دنیا ہے سخی ہاتھ پھیلاؤ تو یہ طرزِ کرم کھلتا ہے مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے دینے والوں کی امیری کا...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : سخن کے مطلعِ رنگیں پہ جو تنویر اُترے گی - وحید اختر

    غزل سخن کے مطلعِ رنگیں پہ جو تنویر اُترے گی زمیں کے دل میں بن کر نور کی تحریر اُترے گی چلا سورج کا رتھ رنگوں کی گرد اُڑنے لگی ہر سو شفق کے آئینوں میں صبح کی تصویر اُترے گی سنہرے نقرئی تیروں کی بارش ہے اندھیروں پر شعایوں کی عماری سے بھی اب تنویر اُترے گی زمیں کو دیکھتے ہیں لوگ خواب آلود...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : خود کو قتل اپنے شراروں کو تہہِ دام کریں - وحید اختر

    غزل خود کو قتل اپنے شراروں کو تہہِ دام کریں لاج اندھیروں کی جو رکھنی ہے تو یہ کام کریں دہر کے کوئے ملامت میں ہُنر بھی ہے خطا دانش و فن سے ہوں آزاد تو کچھ کام کریں ہے یہی ایک مداوائے غمِ قحطِ رجال حُسن سے عشق کریں ، عشق کا اکرام کریں اونچے ایوانوں کی پستی میں نہ رسوا ہوں قدم خوب رویوں...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : تم جو نہیں ہو ، رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی - وحید اختر

    غزل تم جو نہیں ہو ، رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی محفل سے بھی مجھ کو اٹھا لاتی ہے جا کر تنہائی کر کے وداع جو تم کو لوٹا ، یار احباب نے بتلایا پوچھ رہی تھی ملنے والوں سے میرا گھر تنہائی میں تو کتابوں کی دنیا میں خود کو بہلا لیتا ہوں میرے نام سے خط لکھتی ہے تم کو اکثر تنہائی اب سے پہلے اس کا...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : خاموشی محبت کی زباں ہے بھی نہیں بھی - وحید اختر

    غزل کیفیتِ دل تم پہ عیاں ہے بھی نہیں بھی خاموشی محبت کی زباں ہے بھی نہیں بھی بام و در و دیوار ہی کو گھر نہیں کہتے تم گھر میں نہیں ہو تو مکاں ہے بھی نہیں بھی دن آتا ہے شب ڈھلتی ہے کٹتا نہیں پر وقت ہجراں میں وہی دورِ زماں ہے بھی نہیں بھی اک گل کی ہوا لے کے چلی ہے سوئے صحرا فکرِ چمن اندیشۂ...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا - وحید اختر

    غزل جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا ہاتھ آیا جو یقیں وہم سراسر نکلا اک سفر دشتِ خرابی سے سرابوں تک ہے آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منظر نکلا کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا تھی تہی دست ہر اک شاخ خزاں تھی جب تک فصلِ گل آئی تو ہر شاخ سے خنجر...
Top