نہ چین دل کو رہا اور نہ کچھ قرار رہا
تمہارے آنے کا کیا کیا نہ انتظار رہا
جلایا دل کو کبھی، گاہ اشک باری کی
ترے فراق میں مجھ کو یہ کاروبار رہا
وہ گُل گیا تو کہوں کیا کہ مجھ پہ کیا گزری
جگر میں، سینہ میں، پہلو میں میرے خار رہا
خدا گواہ نہ ہو گا خلاف گو تم سا
تمہارے قول و قسم کا نہ اعتبار رہا...