غزلِ
ہر غمِ روزگار چھوڑ دِیا
بے ثمر اِنتظار چھوڑ دِیا
تب مِلی جبْر سے یہ آزادی
جب سے ہر اِختیار چھوڑ دِیا
چھوڑ دی بوریا نشینی بھی
دائمی اِقتدار چھوڑ دِیا
فتح اوروں کے نام کرتے ہُوئے
دَم بَخود کارزار چھوڑ دِیا
غیر تو خیر ساتھ کیا دیتے
خود پہ بھی اِنحصار چھوڑ دِیا
چل دِیا وہ بھی دُوسری...