جب لگیں زخم قاتل کو دعا دی جائے
ھے یہی ر سم ا ٹھا د ی جا ئے
انہی گلرنگ دریچوں سے سحر جھانکےگی
کیوں نہ کھلتے ھوئے زخموں کو دعا دی جائے
ھم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا
کیا برا ھے جو یہ افواہ پھیلا دی جائے
کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں
اور اگر تیری جوانی بھی...
بس اب تو خواب کی صورت ھے آرزوئے طرب
وہ یاس ھے کہ تمنا محال ھے اب کے
مثال سنگ سر راہ ہم ھیں مہر بلب
ستم کشان سفا کا یہ حال اب کے
کسے بتائیں کہ ھم ھیں ھوئےجو کشتہ شب
کہاں نظر کو بھی اذن سوال ھے اب کے
شکست ذات کے انمول ذائقوں کے سبب
خیال ھے نہ ھجوم خیال ھے اب کے
نہ زخم جاں...
زخم رسنے لگا ھے پھر شاید
یاد اس نے کیا ھے پھر شاید
سسکیاں گونجتی ھیں کانوں میں
گھر کسی کا جلا ھے پھر شاید
حاصل عمر کیا یہی کچھ ھے
یہ ابھی سوچنا ھے پھر شاید
در زنداں پہ پھر ھوئی دستک
کوئی درد آشنا ھے پھر شاید
پھر پرندے اڑے ھیں شاخوں سے
اک دھماکہ ھوا ھے پھر شاید...
اسے تو کھو ھی چکے پھر کیا خیال اس کا
یہ فکر کیسی کہ اب ھو گا حال کیا اس کا
وہ اک شخص جسے خود چھوڑ بیٹھے تھے
گھلائے دیتا ھے دل کو کیا ملال اس کا
تمہاری آنکھوں میں چھلکیں ندامتیں کیسے؟
جواب بننے لگا تھا کیا سوال اس کا
تمہارے اپنے ارادے میں کوئی جھول نہ تھا
کہو کہ ملنا تھا ایسا محال کیا اس کا
تم نے بھی کون سا چاہا تھا مجھے
تم نے بھی کون سا چاہا تھا مجھے
میری باتیں بھی غلط میرے ارادے بھی غلط
بے وفائی کا یہ خود ساختہ الزام بھی تسلیم مجھے
یہ بھی مانا کہ غم دہر جواں تھا تو غم جاں کو مری آنکھ کے آنسو نہ ملے
جب زمانوں کی یہ بے مہر ھوائیں مری سوچوں کو جلا دیتی ھیں
میں سوچتا ھوں
جب...
جب بچھڑتے ھیں
تو یوں لگتا ھے جیسے جسم کا کوئی حصہ کٹ کر
صدا کرتا ھے
اور جیسے ھوا کی سسکیاں کہتی ھیں
ہاں تم میرے اپنے تھے
جب بچھڑتے ھیں
تو گزری ساعتوں کی روشنی ھم کو بلاتی ھے
فضا کہتی ھے
ہاں تم وہ پرندے ھو جو مجھ میں سانس لیتے تھے۔
رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اُس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اِک عزیز دوست
اپنے مفاد پر مجھے قربان کرگیا
کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا
خالد میں...
غزل
یہی کروگے کہ اب ہم سے تم ملو گے نہیں
جو بات دل نے کہی تھی اُسے سنو گے نہیں
وہ زخم ڈھونڈ رہا تھا ہنسی لئے لب پر
ہر اک سے پوچھتا پھرتا تھا کچھ کہو گے نہیں
وہ داستاں جسے سنتے تھے روز ہنس ہنس کر
کبھی ہم سے جو سنو گے تو پھر ہنسو گے نہیں
سمجھ رہے ہو کہ کچھ بھی نہیں ہوا خالد
مگر یہ...