غزل
(حبیب جالب)
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے
ہم ترا شہر چھوڑ جائیں گے
دُور افتادہ بستیوں میں کہیں
تیری یادوں سے لو لگائیں گے
شمعِ ماہ و نجوم گل کرکے
آنسوؤں کے دیئے جلائیں گے
آخری بار اک غزل سُن لو
آخری بار ہم سنائیں گے
صورت موجہ ہوا جالب
ساری دنیا کی خاک اُڑائیں گے