غزل
یہ ہم نے دھوپ جو اوڑھی ہوئی ہے
ہماری چھاؤں چوری ہوگئی ہے
چلو وہ خواب تو بننے لگا ہے
چلو کچھ بات تو آگے بڑھی ہے
ابھی نیچی ہے سطحِ دیدہِتر
ابھی دریا میں پانی کی کمی ہے
یہ جس کشتی میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں
یہی تو ایک کشتی رہ گئی ہے
ہم اپنی داستاں کیسے سمیٹیں
ہماری داستاں بکھری...