غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
محبّت کرنے والے کم نہ ہوں گے !
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پُھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے !
سِتم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دِلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی !
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اِک تیرا غم...
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
پھر سے آرائشِ ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے
عشق کی منزلِ اوّل پہ ٹھہرنے والو !
اِس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تو جہاں جائے گی غارت گرِ ہستی بن کر !
ہم بھی اب ساتھ تِرے گردشِ دوراں ہوں گے
کِس قدر سخت ہے، یہ ترک و طلب کی منزل...
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
راز سربستہ محبّت کے، زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خُدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرّف ہے تِرے حُسن کا، اللہ الله
جلوے آنکھوں سے، اُترکردِل وجاں تک پہنچے
تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزُرے تو یہاں تک پنچے
حیرتِ عشق مِری، حُسن کا آئینہ ہے
دیکھنے...
غزل
(حفیظ ہوشیار پوری)
غم سے گر آزاد کرو گے
اور مجھے ناشاد کرو گے
تم سے اور اُمید وفا کی؟
تم اور مجھ کو یاد کرو گے؟
ویراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے؟
عہدِ وفا کو بھولنے والو
تم کیا مجھ کو یاد کرو گے
آخر وہ ناشاد رہے گا
تم جس دل کو شاد کرو گے
میری وفائیں اپنی...
آہ ! اقبال
از: حفیظ ہوشیار پوری
سرورِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمدروزگارِ ایں فقیر ے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
(اقبال)
کوئی اقبال کا ثانی جہاں میں
پس از عُمرِ دراز آئے نہ آئے
حقیقت آشنائے عشق و مستی
پھر اے بزمِ مجاز! آئے نہ آئے
شکستہ تار ہیں سازِ خودی کے
وہ...
غزل
(حفیظ ہوشیار پوری)
تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا
وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا؟
محبت میں تمیزِ دشمن و دوست!
یہاں ناآشنا کیا، آشنا کیا
زمانے بھر سے میںکھو گیا ہوں
تمہیں پا کر مجھے آخر ملا کیا
پھریں مجھ سے زمانے کی نگاہیں
پھری مجھ سے نگاہِ آشنا کیا
وفا کے مدّعی! افسوس افسوس!
تجھے بھی...
یہ مضمون مجلّہ خیابان کی سائٹ سے لیا گیا۔
حفیظ ہوشیار پوری کی غزل کا عروضی تجزیہ
محمد زبیر خالد
Abstract
Hafeez Hushiarpuri (1912-1973) is one of the most important ghazal poets of Pakistan. He was one of the founders of Halqa-i-Arbab-i-Zauq. He was a researcher, teacher of philosophy and...
غزل
(حفیظ ہوشیارپوری)
وہ آکے سامنے جس وقت مسکراتے ہیں
ہم ان کی ساری جفاؤں کو بھول جاتے ہیں
جفا پہ ان کی وفا کا گماں گذرتا ہے
کچھ اس طرح وہ مرے دل کو یاد آتے ہیں
جفائے طعنہء اغیار یاد رہتی ہے
غمِ فراق کے صدمے تو بھول جاتے ہیں
الٰہی خیر ہو یہ آج دیکھتا کیا ہوں
وہ دیکھ دیکھ کے کیوں مجھ کو...
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کارگہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدہء نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے...