نہ صدا کا سمت کشا ہوں میں
نہ ورق پہ میرا وجود ہے
مرے حرف میں وہ چمک نہیں جو ترے خیال کی چھب میں ہے
مرا انگ کیا مرا ڈھنگ کیا
سرِ خامہ روح کا دُود ہے
یہی میرا رازِ شہود ہے
میں شکست خوردہ خیال ہوں مجھے آیتوں کی کمک ملے
مجھے آگہی کی چمک ملے
مجھے درسِ عبرتِ شوق دے
مری انگلیوں کو پکڑ کے حرفِ جنوں پہ...