روز افزوں طلب و حسرتِ بادہ کیوں ہے
بھر گیا زخم تو پھر درد زیادہ کیوں ہے
وہ جو لکھی تھی دھنک میں نے چرا لی کس نے
کل جو رنگیں تھا ورک آج وہ سادہ کیوں ہے
میرے جینے کے لیے خود کو مٹانے والے
یہ بتا اب تیرا تبدیل ارادہ کیوں ہے
جس کی ہر بات کو سچ مان لیا تھا دل نے
اس کی آمد پہ سجا جھوٹا لبادہ کیوں ہے...