سرِ آغاز
حدودِ سود و زیاں سے آگے قدم نکلتا نہیں کسی کا
جہاں نے لیں کروٹیں ہزاروں، مزاج بدلا نہ آدمی کا
یہی تمدّن کا ماحصل ہے، یہی ہے تہذیب کا تقاضا
کوئی تو بیٹھا مزے سے تاپے، مکان جلتا رہے کسی کی
چمن میں ہر پنکھڑی بکھر کے کہے گی رودادِ قیدِ ہستی
بمقتضائے اصولِ فطرت ابھی تو منہ بند ہے کلی کا...