بروئے خاک تھے ذرّاتِ ریگ کے خیمے
بہ سطحِ آب، حبابوں کا شامیانہ تھا
پڑی تھیں عنْبریں زُلفیں کِسی کے شانے پر!
کِسی کی زُلف میں ہاتھوں کا اپنے شانا تھا
گھُلِی ہوئی تھیں صداؤں میں کچھ مدُھر تانیں
ہنْسی کے لحْن میں پایل کا چھنچھنانا تھا
ہم اہلِ ہوش کی انجُم جو لے اُڑا نیندیں!
کسی حَسِین کا...
غزل
حُسین انجُم
زُلف خمدار ہے یا ناگ ہیں کالے جیسے
لب و رُخسار ہیں یا پھول ہیں لالے جیسے
مجھ سے پابندِ وفا کو ہے تو شکوہ یہ ہے
تو بھی ویسا ہی تِرے چاہنے والے جیسے
رُخِ روشن پہ ہے اِس طرح سے ریشم کی نقاب
ابر مہتاب کو دامن میں چھپا لے جیسے
سرنگوں یوں ہُوا سبزہ ترے پیروں کے تلے
آگئے دوش...
غزل
حُسین انجُم
خوشبو کسی بدن کا ابھی میرے بر میں ہے
گونجی ہُوئی صدا کوئی دِیوار و در میں ہے
کُشتہ ہیں اپنی فکرِ تغافل شعار کا
سودا کسی کی زُلف کا کب اپنے سرمیں ہے
ہر آئینے کو نقشِ تحیّر بنا دیا
وہ نقش کون سا دل آئینہ گر میں ہے
شورِ نشور جس کے مقابل ہے دم بخُود
ایسا سکوت دامنِ قلب...