حزیں صدیقی

  1. طارق شاہ

    ایاؔز صدیقی ::::::چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک::::::Ayaz Siddiqui

    غزل چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک پسِ اِمروز رہے گا، رُخِ فردا کب تک اُس کی آنکھوں میں نمی ہے، مِرے ہونٹوں پہ ہنسی میرے اللہ! یہ نیرنگِ تماشا کب تک یہ تغافُل ، یہ تجاہل ، یہ سِتم ، یہ بیداد کب تک ، اے خانہ براندازِ تمنّا !کب تک بن گیا گردشِ دَوراں کا نِشانہ آخر لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ...
  2. محمد امین

    حزیں صدیقی اترے تھے آسمان سے زمیں کو سنوارنے: حزیں صدیقی

    قفسِ رنگ سے لی گئی۔۔۔ اترے تھے آسماں سے زمیں کو سنوارنے، رکھ دی اڑا کے خاک غمِ روزگار نے، ہر زاویے سے میرے خدوخالِ‌ذات کو، پرکھا نگار خانہء لیل و نہار نے، سورج سے تھی امیدِ‌توانائی جسم کو، آواز دی بہت شجرِ‌سایہ دار نے، میں تیز دھوپ میں بھی رہا برف کی چٹان، پگھلا دیا ہے نغمگیء آبشار نے،...
  3. نوید صادق

    حزیں صدیقی کاغذی ہے نہ ریت کی دیوار ۔۔۔ ۔حزیں صدیقی

    غزل کاغذی ہے نہ ریت کی دیوار اپنی سرحد ہے آہنی دیوار ہے فلک بوس قصرِ ہمسایہ اور اونچی کرو ابھی دیوار چاند ماری ہوئی وہ اندر سے بن گئی در فصیل کی دیوار اب تو یہ خستگی کا عالم ہے اب گری جیسے اب گری دیوار جب بھی میں نے سفر کا قصد کیا آگے آگے مرے چلی دیوار کوئی آہٹ، نہ کوئی...
  4. محمد امین

    حزیں صدیقی آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں:‌حزیں صدیقی

    شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں، آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں، سورج تو پیاسا ہے ازل کا تاروں کو پی جاتا ہے، شبنم کے پاگل قطرے کیوں کرنوں سے ٹکراتے ہیں، تُو نے یہ کیا قید لگا دی تیرے جیسے رنگ بھروں، کون سے میرے خاکے تیرے خاکوں سے ٹکراتے ہیں، ایک سحر کی پیاس...
  5. محمد امین

    حزیں صدیقی دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا:‌حزیں صدیقی

    دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا، خود کو حصارِ‌مرگ سے باہر سمجھ لیا، گردِ‌سفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق، ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا، ناکامیِ طلب کا گلہ کیوں، کہ ہم نے خود، سنگِ نشاں کو راہ کا پتھر سمجھ لیا، پروازِ عرش کا بھی دیا تھا سبق تجھے، تو نے ہی اپنے آپ کو بے پر سمجھ لیا، تیرے سپرد...
  6. محمد امین

    حزیں صدیقی ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جان کو: حزیں صدیقی

    جناب حزیں صدیقی مرحوم کا مختصر تعارف اس ربط پر ملا حظہ کیا جا سکتا ہے۔ جو تم ٹھہرو تو ہم آواز دیں عمرِ‌گریزاں کو، ابھی اک اور نشتر کی ضرورت ہے رگِ جاں کو، کبھی ہم نے بھی رنگ و نور کی محفل سجائی تھی، کبھی ہم بھی سمجھتے تھے چمن اک روئے خنداں کو، کبھی ہم پر بھی یونہی فصلِ گل کا سحر طاری تھا،...
  7. محمد امین

    حزیں صدیقی کنارے پر تھی دنیا دیکھنے کو:‌حزیں صدیقی

    جناب حزیں صدیقی مرحوم کا مختصر تعارف اس ربط پر ملا حظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ غزل انکے مجموعے "قفسِ‌رنگ"‌سے اقتباس ہے: میں ابھرا تھا کنارا دیکھنے کو، کنارے پر تھی دنیا دیکھنے کو، مرے ذوقِ نظر نے رنگ بخشے، جہاں میں ورنہ کیا تھا دیکھنے کو، تماشا گاہِ‌عالم میں ہوں تنہا، کوئی تو ہو تماشا دیکھنے کو،...
  8. محمد امین

    حزیں صدیقی مجنوں کی خوشہ چیں مری دیوانگی نہیں:‌حزیں صدیقی

    حزیں صدیقی مرحوم و مغفور میرے نانا جان کے ددھیالی رشتہ دار تھے۔ 1920 میں روہتک میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ طبیعتا درویش اور مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل لاہور میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوئےاور یہاں جناب احسان دانش مرحوم کی شاگردی اختیار کی۔ بعد ازاں ملتان کو...
Top