مجھ سے پوچھتے ہیں لوگ
کس لئیے دسمبر میں
یوں اداس رہتا ہوں
کوئی دکھ چھپاتا ہوں
یا کسی کے جانے کا
سوگ پھر مناتا ہوں
آپ میرے البم کاصفحہ صفحہ دیکھیں گے
آئیے دکھاتا ہوں ضبط آزماتا ہوں
سردیوں کے موسم میں گرم گرم کافی کے
چھوٹے چھوٹے سپ لے کر
کوئی مجھ سے کہتا تھا
ہائے اس دسمبر میں کس بلا کی سردی ہے...
تمھیں دیکھا نہیں، جانا نہیں، پھر بھی یہ لگتا ہے
قبیلہ ایک ہے اپنا
وہی دردِ جُدائی ہے، وہی بھیگی ہوئی پلکیں
نصیبہ ایک ہے اپنا
کسی سے کچھ نہیں کہنا، کوئی شکوہ نہیں کرنا
قرینہ ایک ہے اپنا
کسی کی یاد سے، ویرانہِ دل جگمگا لینا
خزینہ ایک ہے اپنا
یقیں کی آخری حد تک، مِلن کی خوش گمانی ہے
نتیجہ...
" نظم"
مگر ابھی تک کوئی کمی ہے
بہت ہی مصروف زندگی میں
مشہور و معروف زندگی میں
خوشی سے بھرپور ساعتوں میں
ہزار طرح کی راحتوں میں
بدن میں گھلتی رفاقتوں میں
وصال آمادہ خلوتوں سے
بہت ہی ہولے سے چوری چپکے
ہر ایک رشتے سے بچ کے کٹ کے...
خوشحال سے تم بھی لگتے ہو
یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
پر جاننے والے جانتے ہیں
خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
تم اپنی خودی کے پہرے میں
ہم اپنے زعم کے نرغے میں
انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
اک مدت سے غلطاں پیچاں
ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے
پچھتاوں کے انگاروں میں
محصورِ تلاطم آج بھی ہیں...
تم جب بھی گھر پر آتے ہو
اور سب سے باتیں کرتے ہو
میں اوٹ سے پردے کی جاناں
بس تم کو دیکھتی رہتی ہوں
اک تم کو دیکھنے کی خاطر
میں کتنی پاگل رہتی ہوں
میں ایسی محبت کرتی ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو۔
جب دروازے پر دستک ہو
یا گھنٹی فون کی بجتی ہو
میں چھوڑ کے سب کچھ بھاگتی ہوں
اور تم کو جو نہ...