غزل
موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا، اگر تھا تو بہانہ وہ تھا
اِک عجب دَور جوانی کا کبھی یُوں بھی رہا
میں کہانی جو زبانوں پہ، فسانہ وہ تھا
اپنا کر لایا ہر اِک غم مَیں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا اُس کا نشانہ وہ تھا
دِل عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں، کہ اِسے
ایک...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...
غزل
جب سمن یا گلاب دیکھوں میں
دل کو خود پر عذاب دیکھوں میں
زیست کی جب کتاب دیکھوں میں
سب رقم اُس کے باب دیکھوں میں
عاشقی گر نصاب دیکھوں میں !
حُسن اُس کا جواب دیکھوں میں
اُس کے لب اور چشمِ مِینا سے
کیا چَھلکتی شراب دیکھوں میں
جس کے سِینے میں دِل ہے پتّھر کا
دِل کو اُس پر ہی آب...
غزل
ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے
فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے
ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے
دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا
گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے
راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج
ضبط و حیا سے دِن میں کبھی...
غزل
پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے
رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند
سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے
ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں
لاحق ہماری...
غزل
دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے
ہاں مگر اِس کا، کہ سب حال بتا دیتا ہے
دِن گُزارے ہیں سَرِ چاکِ زمانہ، لیکن
یہ بھی ہر شام وہی شکل بنا دیتا ہے
رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ !
نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے
ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پا کر
کیا نہ...
غزل
رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُپھے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح
تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح
یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح
پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے...
غزل
بیٹھے تِرے خیال میں تصوِیر بن گئے
خوابوں میں قید رہنے کی تعبیر بن گئے
نا راستوں کا علم، نہ منزِل کا کُچھ پتہ
کیسے سفر کے ہم یہاں رہ گیر بن گئے
کیا کیا نہ ذہن و دِل میں تہیّہ کیے تھے ہم
اِک ہی نظر میں تابع و تسخِیر بن گئے
ہم نے تمھارے ساتھ گزارے تھے جو کبھی
لمحے وہی تو پاؤں کی زنجیر...
غزل
کیوں قرار اب دِل کو میرے ایک پَل آتا نہیں
دُوسروں کا غم بھی سِینے سے نِکل جاتا نہیں
کِس کو لگتے ہیں بُرے یہ پیار کے مِیٹھے سُخن
تیری باتوں سے بھی اب غم اپنا ٹل جاتا نہیں
نصفِ شب کو اُٹھ کے بیٹھوں پُرملالِ حال سے
میرے خوابوں سے کبھی خوفِ اجَل جاتا نہیں
ہے یہی اِک فکر، کیسے کربِ فُرقت دُور...
غزلِ
ہو جائے اُن سے پیار دوبارہ، کبھی نہیں
پھر ہو غموں سے دِل یہ غبارہ، کبھی نہیں
لاحق ہمیشہ اُن سے بھی تنہائیاں رہیں
دِن اچھا کہہ سکیں وہ گزارہ کبھی نہیں
شِیرازۂ حیات سمیٹا جو ایک بار
کیا ہم بکھرنے دیںگے دوبارہ، کبھی نہیں
حاصل ہُوا ہے اُن سے محبّت میں کم سبق
جو پھرسے دیں وہ خود پہ...
غزلِ
آپ کہیے تو سب بَجا کہیے
کیوں نہ پھر آپ کو خدا کہیے
دوست کہیے نہ آشنا کہیے
ہیں بَضِد ہم سے کُچھ جُدا کہیے
اُن کو کہیے اگر تو کیا کہیے
روگِ دِل کی نہ گر دوا کہیے
دردِ فرقت ہے اب سَوا کہیے
موت یا وہ، رہی دوا کہیے
جان کہتے ہیں، راحتِ جاں بھی !
بڑھ کر اِس سے بھی کیا خدا کہیے
اُن...
غزل
آ ہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی
یاد ٹلتی نظر نہیں آتی
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے
دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی
گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا
یاس ہٹتی نظر نہیں آتی
یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج
سانس چلتی نظر نہیں آتی
کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو...
غزل
شفیق خلش
عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے
ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے
زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل
وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے
بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن
دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے
کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی
ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے
وہ جنھیں ہم نے دی ذرا...
غزل
سواری پیار کی پھر ایک بار گُزرے گی
نجانے دِل کو یہ کیوں اعتبار، گُزرے گی
نہ عُمر یُوں ہی رَہِ خاردار گُزرے گی
ضرور راہ کوئی پُر بہار گُزرے گی
گُماں کِسے تھا اُسے آنکھ بھر کے دیکھا تو
نظر سے میری وہ پھر بار بار گُزرے گی
تمھاری یاد بھی گُزری جو غمکدے سے مِرے
نشاطِ زِیست کی رتھ پر سوار...
غزل
نہ دِل میں غلبۂ قُرب و وصال پہلا سا
کبھی کبھی ہی رہے اب خیال پہلا سا
لئے ہم اُن کو تصوّرمیں رات بھر جاگیں
رہا نہ عِشق میں حاصِل کمال پہلا سا
زمانے بھر کی رہی دُشمنی نہ یُوں ہم سے
رہا نہ عِشق میں جوش و جلال پہلا سا
ذرا سا وقت گُزرنے سے کیا ہُوا دِل کو
رہا نہ حُسن وہ اِس پر...
غزل
آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے
گھر پھربھی میری قید کا بُہتان تھا لئے
طرزوعمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے
جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے
کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے
دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے
دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے
ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ...
غزلِ
شفیق خلش
مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا
دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا
کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا
گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا...
غزل
شفیق خلش
میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا
ورنہ مِلنے کو کسی سے کب کہاں جاتا رہا
میں لبِ دم تھا غمِ فُرقت میں لاحق وہم سے
جی اُٹھا آنے پہ اُس کے، ہر گُماں جاتا رہا
وہ جو آئے جیسے آئیں زندگی کی رونقیں
'میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا'
شوق اب بھی جی کو ہیں لاحق وہی پہلے جو...