غزلِ
خُمار بارہ بنْکوی
دِل کو تسکینِ یار لے ڈوبی
اِس چمَن کو بہار لے ڈوبی
اشک تو پی گئے ہم اُن کے حضُور
آہِ بے اختیار لے ڈوبی
عِشق کے کاروبار کو اکثر
گرمئِ کاروبار لے ڈوبی
حالِ غم اُن سے بار بار کہا
اور ہنسی بار بار لے ڈوبی
تیرے ہر مشورے کو اے ناصح
آج پھر یادِ یار لے ڈوبی...
غزلِ
خماربارہ بنکوی
اکیلے ہیں وہ، اور جھنجلا رہے ہیں
مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں
الٰہی مِرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتّھر نہیں آ رہے ہیں
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دِیے تو دِیے، دِل بُجھے جا رہے ہیں
بہت خوش ہیں گستاخیوں پر ہماری
بظاہر جو برہم نظر آ رہے ہیں
بہشتِ تصوّر...
غزلِ
خُمار بارہ بنکوی
ہزار رنج سر آنکھوں پہ بات ہی کیا ہے
تِری خوشی کے تصدّق، مِری خوشی کیا ہے
خُدا بچائے تِری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہو تو بہک جائے، آدمی کیا ہے
گزُار دُوں تِرے غم میں، جو عمرِ خضرمِلے
تِرے نِثار، یہ دو دِن کی زندگی کیا ہے
بَھری بہار کہاں، اور قفس کہاں صیّاد
سمجھ میں...
غزل
خُماربارہ بنکوی
ایسا نہیں کہ اُن سے محبّت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شِدّت نہیں رہی
ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوِید
وہ دِل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی
سر میں وہ اِنتظار کا سودا نہیں رہا
دِل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی
کمزوریِ نِگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جَلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت...
غزل
خماربارہ بنکوی
وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں
بس دُوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں
اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں
کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں
واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں
ہم تیری گفتگو...
غزل
(خُمار بارہ بنکوی)
حُسن جب مہربان ہو تو کیا کیجئے
عشق کی مغفرت کی دُعا کیجئے
اِس سلیقے سے اُن سے گلِہ کیجئے
جب گلِہ کیجئے ہنس دیا کیجئے
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے
آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجئے
کوئی دھوکا نہ کھا جائے...