جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں
دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں
اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں
گزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
اے جوشِ...
غزلِ
خُمار بارہ بنْکوی
دِل کو تسکینِ یار لے ڈوبی
اِس چمَن کو بہار لے ڈوبی
اشک تو پی گئے ہم اُن کے حضُور
آہِ بے اختیار لے ڈوبی
عِشق کے کاروبار کو اکثر
گرمئِ کاروبار لے ڈوبی
حالِ غم اُن سے بار بار کہا
اور ہنسی بار بار لے ڈوبی
تیرے ہر مشورے کو اے ناصح
آج پھر یادِ یار لے ڈوبی...
غزلِ
خماربارہ بنکوی
اکیلے ہیں وہ، اور جھنجلا رہے ہیں
مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں
الٰہی مِرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتّھر نہیں آ رہے ہیں
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دِیے تو دِیے، دِل بُجھے جا رہے ہیں
بہت خوش ہیں گستاخیوں پر ہماری
بظاہر جو برہم نظر آ رہے ہیں
بہشتِ تصوّر...
غزلِ
خُمار بارہ بنکوی
ہزار رنج سر آنکھوں پہ بات ہی کیا ہے
تِری خوشی کے تصدّق، مِری خوشی کیا ہے
خُدا بچائے تِری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہو تو بہک جائے، آدمی کیا ہے
گزُار دُوں تِرے غم میں، جو عمرِ خضرمِلے
تِرے نِثار، یہ دو دِن کی زندگی کیا ہے
بَھری بہار کہاں، اور قفس کہاں صیّاد
سمجھ میں...
غزل
خُماربارہ بنکوی
ایسا نہیں کہ اُن سے محبّت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شِدّت نہیں رہی
ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوِید
وہ دِل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی
سر میں وہ اِنتظار کا سودا نہیں رہا
دِل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی
کمزوریِ نِگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جَلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت...
غزل
خمار بارہ بنکوی
کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا
بڑے تپاک سے غم نے مجھے سلام کیا
ہزار ترکِ تعلق کا اہتمام کیا
مگر جہاں وہ ملے دل نے اپنا کام کیا
زمانے والوں کے در سے اُٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اُس نے بصدِ معذرت سلام کیا
کبھی ہنسے کبھی آہیں بھریں کبھی روئے
بقدرِ مرتبہ ہر غم...
غزل
(خُمار بارہ بنکوی)
حُسن جب مہربان ہو تو کیا کیجئے
عشق کی مغفرت کی دُعا کیجئے
اِس سلیقے سے اُن سے گلِہ کیجئے
جب گلِہ کیجئے ہنس دیا کیجئے
دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے
سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے
آپ سُکھ سے ہیں ترکِ تعلق کے بعد
اتنی جلدی نہ یہ فیصلہ کیجئے
کوئی دھوکا نہ کھا جائے...
بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
یہ آخری چراغ بجھائے نہ بنے
دنیا نے جب مرا نہیں بننے دیا انہیں
پتھر تو بن گئے وہ پرائے نہیں بنے
توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے
پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے
یہ نصف شب یہ میکدے کا...
ہجر کی شب ہے اور اجالا ہے
کیا تصور بھی لٹنے والا ہے
غم تو ہے عینِ زندگی لیکن
غمگساروں نے مار ڈالا ہے
عشق مجبور و نامراد سہی
پھر بھی ظالم کا بول بالا ہے
دیکھ کر برق کی پریشانی
آشیاں خود ہی پھونک ڈالا ہے
کتنے اشکوں کو کتنی آہوں کو
اک تبسم میں اس نے ڈھالا ہے
تیری باتوں کو میں نے...
آج بتاریخ 20 فروری 2009 خمار بارہ بنکوی کی دسویں برسی منانے کے حوالے سے محفل پر خمار بارہ بنکوی کے کلام کا انتخاب جمع کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔
اس دھاگے میں ان کی غزلیات اکٹھی کی جائیں گی اور جہاں ممکن ہوا ان کی آواز یا ان کی ویڈیوز بھی شامل کی جائیں گی۔
اے موت! تمہیں بلائے زمانے گزر گئے
آ جا کہ زہر کھائے زمانے گزر گئے
او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں
رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے
کیا لائقِ ستم بھی نہیں اب میں دوستو!
پتھر بھی گھر میں آئے زمانے گزر گئے
جانِ...
مجھ کو شکستِ دل کا مزہ یاد آ گیا
تم کیوں اُداس ہو گئے، کیا یاد آ گیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا
برسے بغیر ہی جو گھٹا گِھر کے کُھل گئی
اک بیوفا کا عہدِ وفا یاد آ گیا
واعظ سلام لے کہ چلا میکدے کو میں
فردوسِ گمشدہ کا پتہ یاد آ گیا
مانگیں گے اب...