غزلِ
خُمار بارہ بنْکوی
دِل کو تسکینِ یار لے ڈوبی
اِس چمَن کو بہار لے ڈوبی
اشک تو پی گئے ہم اُن کے حضُور
آہِ بے اختیار لے ڈوبی
عِشق کے کاروبار کو اکثر
گرمئِ کاروبار لے ڈوبی
حالِ غم اُن سے بار بار کہا
اور ہنسی بار بار لے ڈوبی
تیرے ہر مشورے کو اے ناصح
آج پھر یادِ یار لے ڈوبی...
غزل
خماربارہ بنکوی
وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں
بس دُوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں
اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں
کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں
واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں
ہم تیری گفتگو...