کبھی دل میں ٹیسیں اٹھائے خموشی
کبھی ایسا ہے دل کو بھائے خموشی
کبھی کچھ نہ کہہ کر بھی کہتی ہے سب کچھ
پسند آتی ہے یہ ادائے خموشی
ہر اک لفظ بے معنی لگنے لگے گا
کبھی غور سے سن صدائے خموشی
خموشی بہت خوبصورت ہے لیکن
ترے لب پہ ہو تو نہ بھائے خموشی
بھری بزم میں یوں نہ خاموش بیٹھو
فسانہ کہیں...
رِدائے غم خموشی کا کفن پہنے ہوئے ہے
کوئی تیرا کوئی میرا بدن پہنے ہوئے ہے
اکیلی اور اندھیری رات اور یہ دل اور یادیں
یہ جنگل جگنوں کا پیرہن پہنےہوئے ہے
رہا ہو بھی چکے ہم تو کب کہ مگر دل
یہ وہشی اب بھی زنجیرِکُہن پہنے ہوئے ہے
کہاں کا دستِ تیشا، کہاں کا دستِ شیریں
کہ پرویزی لبادہ کوہکن پہنے...