غزل
سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے
تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے
واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے
یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے
مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی
میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے
گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے
سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
زخمی جو کوئی ہوا ہو کسی کی نگاہ کا
زاہد کو ہم نے دیکھ لیا جوں نگیں بہ عکس
روشن ہوا ہے نام تو اس رو سیاہ کا
ہر چند فسق میں تو ہزاروں ہیں لذتیں
لیکن عجب مزہ ہے فقط جی کی چاہ کا
لے کر ازل سے تابہ ابد ایک آن ہے
گر درمیاں حساب نہ ہو سال و ماہ کا
رحمت قدم نہ...
غزل
تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا
مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا
رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات !
ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا
گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر !
مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا
دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
نہ ہاتھ اُٹھائے فلک گو ہمارے کینے سے
کسے دماغ کہ ہو دوبدو کمینے سے
نہیں خیال مجھے خاتمِ سلیماں کا
برنگِ نام ہوں بر کندہ دل نگینے میں
بسانِ دانۂ انگور مے پرستوں نے
لیا ہے فیض مرے دل کے آب گینے سے
ترقّی اور تنزّل کو یاں کے کچھ عرصہ
مثالِ ماہ زیادہ نہیں مہینے سے
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تُو نہ مر...
غزل
خواجہ محمد مِیر اثؔر دہلوی
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
دِل تجھے اعتبار آتا ہے؟
دوست ہوتا جو وہ، تو کیا ہوتا
دُشمنی پر تو پیار آتا ہے
تیرے کوچے میں بیقرار تِرا
ہر گھڑی بار بار آتا ہے
زیرِ دِیوار تُو سُنے نہ سُنے
نام تیرا پُکار آتا ہے
حال اپنے پہ ،مجھ کو آپ اثؔر!
رحم بے اِختیار آتا ہے
خواجہ...
دل کو لے جاتی ہیں معشوقوں کی خوش اسلوبیاں
ورنہ ہیں معلوم ہم کو سب انھوں کی خوبیاں
صورتوں میں خوب ہوں گی شیخ گو حورِ بہشت
پر کہاں یہ شوخیاں یہ طَور یہ محبوبیاں
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں
آپ تو تھیں ہی پر اس کا بھی کیا خانہ خراب
دردؔ اپنے ساتھ...
اُن نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں
آجائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ
جیتا رہے گا کب تئیں اے خضر مر کہیں
پھرتی رہی تڑپتی ہے عالم میں جا بجا
دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں
مدت تلک جہان میں ہنستے پھرا کیے
جی میں ہے خوب روئیے اب بیٹھ کر کہیں
یوں تو نظر...
غزل
خواجہ میردرد
اپنا تو نہیں یار میں کُچھ ، یار ہُوں تیرا
تُو جس طرف ہووے طرف دار ہُوں تیرا
کڑھنے پہ مِرے جی نہ کڑھا ، تیری بَلا سے
اپنا تو نہیں غم مجھے ، غمخوار ہُوں تیرا
تُو چاہے نہ چاہے، مجھے کُچھ کام نہیں ہے!
آزاد ہُوں اِس سے بھی ، گرفتار ہُوں تیرا
تو ہووے جہاں مجھ کو بھی ہونا...
غزل
خواجہ میر درد
دل کِس کی چشمِ مست کا سرشار ہوگیا
کِس کی نظر لگی، جو یہ بیمار ہو گیا
کچھ ہے خبر تجھے بھی، کہ اُٹھ اُٹھ کے رات کو !
عاشق تِری گلی میں کئی بار ہو گیا
بیٹھا تھا خضر آکے مِرے پاس ایک دم
گھبرا کے اپنی زیست سے بیزار ہو گیا
چاکِ جگر تو سینکڑوں خاطر میں کُچھ نہ تھے
دل کی...
غزلِ
خواجہ میر درد
مثلِ نگِیں جو ہم سے ہُوا کام رہ گیا
ہم رُو سیاہ جاتے رہے نام رہ گیا
یارب یہ دل ہے یا کوئی مہماں سرائے ہے
غم رہ گیا کبھو، کبھو آرام رہ گیا
ساقی مِرے بھی دل کی طرف ٹک نِگاہ کر
لب تشنہ تیری بزْم میں یہ جام رہ گیا
سو بار سوزِ عشق نے دی آگ، پر ہنوز
دل وہ کباب ہے کہ جِگر...
ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے ۔ مہدی حسن
غزل بشکریہ ملائکہ
ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے؟
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
"لے خبر" تیغِ یار کہتی ہے
"باقی اس نیم جان میں کچھ ہے"
ان دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے...
حمد باریء تعالی
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
اعیان ہیں مظاہر، ظاہر ظہور تیرا
یاں افتقار کا تو امکاں سبب ہوا ہے
ہم ہوں نہ ہوں ولے ہے ہونا ضرور تیرا
باہر نہ ہوسکی تو قیدِ خودی سے اپنی
اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا
ہے جلوہ گاہ تیرا کیا...
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب؟ گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم...
سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا
دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا تو نے رحم - پر نہ کیا
آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے ! ظاہر میں سفر نہ کیا
کونسا دل ہے وہ؟ کہ جس میں آہ!
خانہ آباد! تو نے گھر نہ کیا
سب کے جوہر نظر میں آئے درد!
بے ہنر! تو نے کچھ ہنر نہ کیا...
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے - جو کچھ آرزو کریں
تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جا - ابھی
دامن نچوڑ دیں - تو فرشتے وضو کریں( اس شعر کو میں کسی اور طرح پڑھا تھا شاید)
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال؟ جو کچھ گفتگو کریں
ہر چند آئینہ ہوں - پر اِتنا...
دیکھئے جس کو یاں - اُسے اور ہی کچھ دماغ ہے
کرمکِ شب چراغ بھی گوہرِ شب چراغ ہے
غیر سے کیا معاملہ؟ آپ ہیں اپنے دام میں
قیدِ خودی نہ ہو اگر - پھر تو عجب فراغ ہے
حال مرا نہ پوچھئے - میں جو کہوں - سو کیا کہوں؟
دل ہے سو ریش ریش ہے - سینہ - سو داغ داغ ہے
سنتے ہیں یوں کہ آہ تو ہم ہی میں چھپ...
تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
ایک...
خواجہ میر درد (1720تا 1785
درد دہلی میں پیدا ہوئے ۔ والد محمد ناصر عندلیب کی طرف سے نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی اور والدہ کی طرف سے حضرت غوث اعظم سے ملتا ہے۔ عین عالم شباب یعنی انتیس برس کی عمر میں ترک دنیاکی اور باپ کی وفات پر 39 برس کی عمر میں سجادہ نشین بنے۔ ان امور کا اس لیے تذکرہ کیا...