غزل
سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے
تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے
واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے
یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے
مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی
میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے
گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے
سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
غزل
تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا
مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا
رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات !
ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا
گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر !
مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا
دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
غزل
(خواجہ میر درد)
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تو ہی نظر آیا جدھر دیکھا
جان سے ہوگئے بدن خالی
جس طرف تونے آنکھ بھر دیکھا
نالہ، فریاد، آہ اور زاری
آپ سے ہوسکا جو کر دیکھا
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
زور عاشق مزاج ہے کوئی
درد کو قصہ مختصر دیکھا
حمد باریء تعالی
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا
جس مسند عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دَیر و حَرم کا
ہے خوف اگر جی میں...