غزلِ
خورشید فریدآبادی
اِس قدر مایوُس فِطرت ہو گئی تیرے بغیر
رنْج سے بدلی ہُوئی ہے ہرخوشی تیرے بغیر
بادۂ رنگیں کی لذّت، زہْرتھی تیرے بغیر
تیری آنکھوں کی قسم، ہم نے نہ پی تیرے بغیر
صُبحِ گُلشن، ہے شبِ افسُردگی تیرے بغیر
لوٹ جاتی ہے، بہار آئی ہوئی تیرے بغیر
اب، مِری محرومیوں پر فصلِ...