جیولری ، کھلونے ، بوتیک ہو یا کاروں کا شو روم صرف دیکھ کر یا ہاتھ سے محسوس کر کے تسلی نہیں ہوتی۔جب تک کہ وہ احساسِ لمس سے خوابیدہ نہ کر دے۔ نظر بھربھر دیکھنے سے اپنائیت کا احساس موجزن نہیں ہوتا۔عدم دستیابی خالی پن سے زیادہ اپنے پن سے عاجز ہو جاتی ہے۔آج لفظوں سے اظہار اجاگر نہیں ہو گا۔کیفیت بیان...
فراز صاحب کی ایک نظم جو جو آج اُن کے بیٹے سرمد فراز نے ملالہ یوسف زئی سے منسوب کی ہے۔
بہت حسبِ حال لگتی ہے۔
مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں...
(پروین شاکر کی غزل پچھلے کئی دنوں سے حواس پر طاری ہے ، سوچا آپ کو بھی شریک کروں ، مذکورہ غزل کا ایک شعر زبان زدِ عام ہے )
غزل
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت...
غزل
پورا دُکھ او ر آدھا چاند!
ہجر کی شب اور ایسا چاند!
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اِتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے...
میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خدا ! لگ گئی
کیسی کیسی، دعاؤں کے ہوتے ہوئے بد دعا لگ گئی
ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں
زندگی کا یقیں کس کو تھا، بس یہ کہیے، دوا لگ گئی
جھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا، سنگ اٹھائے ہوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خدا لگ گئی
جنگلوں کے...
تتلیوں کی بے چینی آ بسی ہے پاؤں میں
ایک پل کو چھاؤں میں، اور پھر ہواؤں میں
جن کے کھیت اور آنگن ایک ساتھ اجڑتے ہیں
کیسے حوصلے ہوں گے ان غریب ماؤں میں
صورتِ رفو کرتے، سر نہ یوں کھلا رکھتے
جوڑ کب نہیں ہوتے، ماؤں کی رداؤں میں
آنسوؤں میں کٹ کٹ کر کتنے خواب گرتے ہیں
اک جوان کی میت آ رہی ہے گاؤں...
اب کیسی پردہ داری، خبر عام ہو چکی
ماں کی ردا تو، دن ہوئے، نیلام ہو چکی:(
اب آسماں سے چادرِ شب آئے بھی تو کیا
بے چادری زمین پہ الزام ہو چکی
جُڑے ہوئے دیار پہ پھر کیوں نگاہ ہے
اس کشت پر تو بارشِ اکرام ہو چکی
سورج بھی اس کو ڈھونڈ کے واپس چلا گیا
اب ہم بھی گھر کو لوٹ چلیں، شام ہو چکی...
جگا سکے نہ ترے لب، لکیر ایسی تھی
ہمارے بخت کی ریکھا بھی میر ایسی تھی
یہ ہاتھ چومے گئے، پھر بھی بے گلاب رہے
جو رت بھی آئی، خزاں کے سفیر ایسی تھی
وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی، امیر ایسی تھی
شہادتیں مرے حق میں تمام جاتی تھیں
مگر خموش تھے منصف، نظیر ایسی تھی...
پانی پر بھی زادِ سفر میں پیاس تو لیتے ہیں
چاہنے والے ایک دفعہ بن باس تو لیتے ہیں
ایک ہی شہر میں رہ کر جن کو اذنِ دید نہ ہو
یہی بہت ہے، ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں
رستہ کتنا دیکھا ہوا ہو، پھر بھی شاہ سوار
ایڑ لگا کر اپنے ہاتھ میں راس تو لیتے ہیں
پھر آنگن دیواروں کی اونچائی میں گم ہوں...